فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنطِقُونَ
پس آسمان اور زمین کے پروردگار کی قسم! یہ بات ایسے ہی ایک حقیقت ہے جیسے تمہارا بولنا [١٧] ایک حقیقت ہے۔
فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ....: کسی بات کا یقین دلانے کے لیے اس کی تشبیہ ایسی چیز کے ساتھ دی جاتی ہے جو مخاطب کے نزدیک یقینی ہو، مثلاً کہا جاتا ہے : ’’كَمَا أَنَّكَ هٰهُنَا‘‘ کہ یہ بات ایسے ہی یقینی ہے جیسے تم یہاں موجود ہو، یا ’’كَمَا أَنَّكَ تَسْمَعُ وَ تَرٰي‘‘ جیسے یہ یقینی ہے کہ تم سن رہے ہو اور دیکھ رہے ہو۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کا یقین دلانے کے لیے جو اس سے پہلے گزری ہیں آسمان و زمین کے رب کی قسم کھا کر فرمایا کہ یہ سب کچھ ایسے ہی حق اور یقینی ہے جیسے تمھیں یقین ہے کہ تم بولتے ہو۔ اس سے پہلے مذکور چیزوں میں سب سے قریب یہ ہے کہ تمھارا رزق اور وہ تمام چیزیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان ہی میں ہیں۔ اس لیے مطلب یہ ہوا کہ تمھارے رزق کا اور تم سے وعدہ کردہ چیزوں کا آسمان ہی میں ہونا ایسے ہی یقینی ہے جیسے تمھارا بولنا یقینی ہے اور تمھیں کوئی شک نہیں کہ تم واقعی بولتے ہو۔ ’’ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ‘‘ (بلاشبہ یقیناً یہ حق ہے) سے مراد سورت کے شروع سے یہاں تک مذکور تمام چیزیں بھی ہو سکتی ہیں کہ بلاشبہ یقیناً تم سے کیے گئے وعدے، قیامت، جزا و سزا، جنت و جہنم، تمھارے رزق کا اور تم سے وعدہ کردہ چیزوں کا آسمان ہی میں ہونا ایسے ہی حق ہے جیسے یہ حق ہے کہ تم بول رہے ہو اور تمھیں اپنے بولنے میں شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سننے یا دیکھنے وغیرہ کے بجائے بولنے کا ذکر اس لیے فرمایا کہ سننے یا دیکھنے میں بعض اوقات شبہ بھی پڑ جاتا ہے، مگر آدمی کو اپنے بولنے میں کبھی شبہ نہیں ہوتا کہ میں بول رہا ہوں اور بات کر رہا ہوں۔