وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
اور خود تمہارے اپنے اندر [١٤] بھی، پھر کیا تم غور سے نہیں دیکھتے؟
1۔ وَ فِيْ اَنْفُسِكُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ: یعنی خود تمھارے نفسوںمیں دوبارہ زندہ ہونے کی بے شمار نشانیاں موجود ہیں کہ مٹی اور نطفے سے لے کر موت تک ہر لمحہ موت کے بعد زندگی کا شاہد ہے، کیونکہ جسم کا ہر خلیہ جو موجود ہوتا ہے فنا ہوتا اور اس کی جگہ نیا خلیہ وجود میں آتا رہتا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے، جس کے دوران انسان بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی طرف بھی منتقل ہوتا رہتا ہے، مگر موت و حیات کے اس سلسلے پر غور کرنے والے بہت ہی کم ہیں۔ یہ بحث تفصیل کے ساتھ سورۂ مومنون (۱۲ تا ۱۶) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ انسان کی ذات میں قیامت کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت، حکمت، تدبیر، صنعت، قدرت اور دوسری صفات کی بھی بے شمار نشانیاں موجود ہیں۔ مفسر کیلانی لکھتے ہیں : ’’انسان کا اپنا وجود اور اس کی مشینری کائنات اصغر ہے اور اس میں جو نشانیاں ہیں وہ کائنات اکبر کی نشانیوں سے کسی طرح کم نہیں۔ انسان کا معدہ ایک چکی کی طرح دن رات کام میں لگا رہتا ہے، جو غذا کو پیس کر ایک ملغوبہ تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ جب یہ فارغ ہو جائے تو اور غذا طلب کرتا ہے جسے ہم بھوک کہتے ہیں۔ اس ملغوبہ کی تیاری میں اگر پانی کی کمی ہو تو ہمیں پیاس لگ جاتی ہے اور ہم کھانے پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پھر اس کے اندر چھلنی بھی ہے جس سے چھن کر یہ ملغوبہ جگر میں چلا جاتا ہے، جہاں اچھالنے والی، دفع کرنے والی، صاف کرنے والی، کھینچنے والی مشینیں اور قوتیں کام کر رہی ہیں۔ یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں۔ فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے خارج کر دیتے ہیں۔ قوت دافعہ فالتو مواد یا فضلہ کو خارج کرنے کا کام کرتی ہے اور جس طرح انسان کھانے پینے پر مجبور ہوتا ہے اسی طرح رفع حاجت پر مجبور ہو جاتا ہے اور اگر روکے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ پھر انسان کے جسم میں اتنی باریک نالیاں ہیں جن کا سوراخ خورد بین کے بغیر نظر ہی نہیں آ سکتا، انھی کے ذریعے انسان کے جسم کے ہر حصے کو خون پہنچتا ہے۔ اس سلسلہ میں انسان کا دل پمپ کا کام کرتا ہے جو ایک منٹ بھی ٹھہر جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ پھر انسان کا سانس لینا بھی ایک الگ پورا نظام ہے۔ سب سے زیادہ باریک آنکھ کے طبقے اور جھلیاں ہیں جو ایسی لطافت کے ساتھ بنائی گئی ہیں کہ اگر ذرا سا فتور آ جائے تو بینائی جواب دے جاتی ہے۔ (پھر سننے، سونگھنے، چکھنے، سوچنے، سمجھنے، یاد رکھنے، محسوس کرنے، سونے، جاگنے، بولنے اور دوسرے بے شمار افعال کے نظام ہیں جن میں سے ہر ایک پر غور کیا جائے تو آدمی حیرت کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے) انسان کا جسم ابتدا ہی سے حکیموں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کا مرکز بنا ہوا ہے، مگر اس کے بیشتر اسرار آج تک پردۂ راز ہی میں ہیں۔‘‘ [ تیسیر القرآن ] 3۔ ’’ وَ فِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ ‘‘ میں آفاقی آیات کا ذکر ہے اور ’’ وَ فِيْ اَنْفُسِكُمْ ‘‘ میں انفسی آیات کا۔ مزید دیکھیے حم السجدہ (۵۳)۔