إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ
کہ جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا [٣] ہے وہ سچا ہے۔
1۔ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ ....: یہاں ’’ اِنَّمَا ‘‘ اکٹھا لفظ نہیں جو کلمہ حصر ہے اور جس کا معنی ہے ’’اس کے سوا نہیں‘‘ بلکہ اس میں ’’إِنَّ‘‘ حرف تاکید الگ ہے اور ’’مَا ‘‘ الگ ہے جو اسم موصول ہے اور اس کا معنی ہے ’’وہ جو۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے زمانے میں رسم الخط پوری طرح ضبط نہیں ہوا تھا، انھوں نے ان دونوں کو اکٹھا لکھ دیا، تو بعد میں امت نے قرآن مجید کی حفاظت کا اتنا زبردست اہتمام کیا کہ صحابہ نے جو لفظ جس طرح لکھا تھا قرآن مجید کے رسم الخط میں اسے اسی طرح باقی رکھا گیا۔ 2۔ یعنی ان چاروں صفات کی حامل ہوائیں شاہد ہیں کہ تم سے دوبارہ زندہ کیے جانے اور قبروں سے نکل کر اللہ کے سامنے پیش ہونے کا جو وعدہ کیا جاتا ہے وہ یقیناً سچا ہے اور ہر عمل کی جزا بلاشبہ یقیناً واقع ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہواؤں کی مُردوں کے زندہ کرنے پر دلالت کو ایک اور آیت میں خوب واضح فرمایا ہے، فرمایا : ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ حَتّٰى اِذَا اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ﴾ [ الأعراف : ۵۷ ]’’اور وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے بھیجتا ہے، اس حال میں کہ خوش خبری دینے والی ہیں، یہاں تک کہ جب وہ بھاری بادل اٹھاتی ہیں تو ہم اسے کسی مردہ شہر کی طرف ہانکتے ہیں، پھر اس سے پانی اتارتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ہر قسم کے کئی پھل پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم مُردوں کو نکالیں گے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘ قرآن مجید نے بارش کے ساتھ مردہ زمین کے زندہ کرنے کو قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنے کی دلیل کے طور پر بار بار بیان فرمایا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ فاطر (۹) اور سورۂ روم (۴۸ تا ۵۰)۔