فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا
پھر ان کی جو (بادلوں کا) بوجھ اٹھانے والی ہیں۔
فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا: ’’ وِقْرًا ‘‘ بوجھ، اس پر تنوین تعظیم کے لیے ہے، بھاری بوجھ۔ یہ بھی ہواؤں ہی کی صفت ہے کہ پھر وہ ہوائیں سورج کی حرارت کے ساتھ سمندر سے اٹھنے والے آبی بخارات سے بننے والے کروڑوں اربوں ٹن وزنی بھاری بادلوں کو اٹھاتی ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ عربی زبان میں عام طور پر جب صفات کا عطف فاء کے ساتھ ہو تو ایک تو وہ سب ایک ہی موصوف کی صفتیں ہوتی ہیں، دوسرا ان میں ترتیب ہوتی ہے، جیسا کہ سورۂ عادیات میں ہے : ﴿ وَ الْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا (1) فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا (2) فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا (3) فَاَثَرْنَ بِهٖ نَقْعًا (4) فَوَسَطْنَ بِهٖ جَمْعًا﴾ [ العادیات : ۱ تا ۵ ]’’قسم ہے ان ( گھوڑوں) کی جو پیٹ اور سینے سے آواز نکالتے ہوئے دوڑنے والے ہیں! پھر جو سم مار کر چنگاریاں نکالنے والے ہیں! پھر جو صبح کے وقت حملہ کرنے والے ہیں! پھر اس کے ساتھ غبار اڑاتے ہیں۔ پھر وہ اس کے ساتھ بڑی جماعت کے درمیان جا گھستے ہیں۔ ‘‘ یہاں فاء کے ساتھ عطف سے ظاہر ہے کہ یہ اور اس کے بعد آیات میں مذکور سب صفات ہواؤں ہی کی ہیں۔