وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ
اس دن ہر شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا [٢٥] اور ایک گواہی دینے والا (فرشتہ) ہوگا
وَ جَآءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَآىِٕقٌ وَّ شَهِيْدٌ:’’ سَآىِٕقٌ ‘‘ ’’ سَاقَ يَسُوْقُ سَوْقًا ‘‘ سے اسم فاعل ہے، ہانکنے والا جو جانوروں کو یا کسی گروہ کو ہانک کر کسی جگہ پہنچاتا ہے۔ ’’ شَهِيْدٌ ‘‘ شہادت دینے والا۔ یعنی قبر سے نکلتے ہی ہر کافر کے ساتھ ایک فرشتہ ہانکنے والا ہو گا جو اسے ہانک کر محشر کی طرف لے جائے گا اور ایک اس کے اعمالِ بد کی شہادت دینے والا ہو گا۔ یہ فرشتہ کراماً کاتبین میں سے بھی ہو سکتا ہے جو اس کا نامۂ اعمال لے کر شہادت کے لیے حاضر ہو گا۔ گویا مجرم بھی حاضر ہو گا اور اس کے خلاف مکمل شہادتیں بھی حاضر ہوں گی۔ ’’ كُلُّ نَفْسٍ ‘‘ سے مراد یہاں ہر کافر و مشرک ہے، کیونکہ اس اہانت اور تذلیل کے ساتھ کفار ہی کو لے جایا جائے گا۔ بعد کی آیات سے بھی یہ بات واضح ہو رہی ہے۔