مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ
وہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران [٢١] موجود ہوتا ہے۔
مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ: ’’ رَقِيْبٌ ‘‘ نگرانی کرنے والا اور ’’ عَتِيْدٌ ‘‘ تیار۔ اس آیت کے مفہوم کے قریب یہ آیات ہیں : ﴿ وَ اِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ (10) كِرَامًا كَاتِبِيْنَ (11) يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ﴾ [ الانفطار : ۱۰ تا ۱۲ ] ’’حالانکہ بلاشبہ تم پر یقیناً نگہبان (مقرر) ہیں۔ جو بہت عزت والے ہیں، لکھنے والے ہیں۔ وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔ ‘‘ اگرچہ انسان کا ہر قول و فعل اور ارادہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، مگر فرشتوں کے ذریعے سے کتابِ اعمال کی تیاری قیامت کے دن اس پر حجت قائم کرنے کے لیے ہے، فرمایا: ﴿وَ نُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا (13) اِقْرَاْ كِتٰبَكَ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا ﴾ [ بني إسرائیل:۱۳، ۱۴] ’’اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے، جسے وہ کھولی ہوئی پائے گا۔اپنی کتاب پڑھ، آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب بہت کافی ہے۔ ‘‘ آج کل آڈیو اور وڈیو کے ذریعے سے انسان کے تقریباً ہر قول و فعل کا مکمل نقشہ محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ انسانی ایجادات کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو عطا کردہ صلاحیتوں کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہو سکتی۔ اس کتاب کو دیکھ کر بندوں کا جو حال ہوگا وہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ کہف میں بیان فرمایا ہے : ﴿وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَ يَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّ لَا كَبِيْرَةً اِلَّا اَحْصٰىهَا وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وَ لَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا ﴾ [الکھف:۴۹ ] ’’اور کتاب رکھی جائے گی، پس تو مجرموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہوگا اور کہیں گے ہائے ہماری بربادی! اس کتاب کو کیا ہے، نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے اور نہ بڑی مگر اس نے اسے ضبط کر رکھا ہے، اور انھوں نے جو کچھ کیا اسے موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ‘‘