سورة ق - آیت 10

وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت بھی جن پر تہ بہ تہ خوشے لگتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ النَّخْلَ بٰسِقٰتٍ: ’’ النَّخْلَ ‘‘ اسم جنس ہے جو کھجور کے درختوں پر بولا جاتا ہے، زیادہ ہوں یا ایک۔ اگر کھجور کا ایک درخت ہو تو اسے ’’نَخْلَةٌ‘‘ کہتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ﴾ [مریم:۲۳ ] ’’پھر دردزہ اسے کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔‘‘ ’’بَسَقَ يَبْسُقُ بُسُوْقًا‘‘(ن) ’’اَلنَّخْلُ‘‘ کھجور کے درختوں کا لمبا اور بلند ہونا۔ چنانچہ زمین پر پڑے ہوئے کھجور کے لمبے تنے کو ’’باسق‘‘ نہیں کہتے۔ لَهَا طَلْعٌ نَّضِيْدٌ: ’’ طَلْعٌ ‘‘ کھجور کے پھل کا خوشہ جو شروع میں طلوع ہوتا ہے اور اس پر پردہ ہوتا ہے۔ ’’ نَضِيْدٌ ‘‘ بمعنی ’’مَنْضُوْدٌ‘‘ تہ بہ تہ۔ یعنی پردے کے اندر انار کے دانوں کی طرح کھجور کے دانوں کی ابتدا تہ بہ تہ قطاروں کی شکل میں ہوتی ہے، جب غلاف سے باہر نکل آئیں تو ’’ نَضِيْدٌ ‘‘ نہیں رہتے، بلکہ الگ الگ ہو جاتے ہیں۔