أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ
کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے کس طرح اسے بنایا [٧] اور آراستہ کیا اور اس میں کوئی شگاف (بھی) نہیں
1۔ اَفَلَمْ يَنْظُرُوْا اِلَى السَّمَآءِ: کفار نے جن چیزوں کو جھٹلایا ان میں سے ایک اہم چیز دوبارہ زندگی تھی، اس لیے یہاں سے اس کے کچھ مزید دلائل بیان فرمائے۔ ’’ اَفَلَمْ يَنْظُرُوْا ‘‘ میں ’’نظر‘‘ کا معنی اگرچہ غور و فکر بھی ہے، مگر اوّلین معنی دیکھنا ہے اور اس میں زیادہ زور ہے کہ ان مخلوقات کے دوبارہ زندگی پر دلالت کے لیے انھیں صرف آنکھوں کے ساتھ دیکھ لینا ہی کافی ہے۔ یعنی آسمانوں کا بنانا، انھیں ستاروں کے ساتھ سجانا اور زمین کو پیدا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں بنانے والا انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ دوسری جگہ یہی بات زیادہ صریح الفاظ میں بیان فرمائی ہے: ﴿اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ لَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰى اَنْ يُّحْيَِۧ الْمَوْتٰى بَلٰى اِنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ﴾ [ الأحقاف : ۳۳ ] ’’اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے؟ کیوں نہیں! یقیناً وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ 2۔ فَوْقَهُمْ: یہ ’’ السَّمَآءِ‘‘ سے حال ہے، یعنی ان کے لیے آسمان کو دیکھنا کچھ مشکل نہیں، نہ اس کے لیے کسی سفر کی ضرورت ہے، نہ دوربین یا کسی آلے کی، بس اوپر سر اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ کی اس عظیم مخلوق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ 3۔ كَيْفَ بَنَيْنٰهَا وَ زَيَّنّٰهَا: ’’السَّمَآءِ‘‘سے مراد پورا عالم بالا ہے، جس میں فضا، چاند، تارے، سورج اور خیمے کی طرح چاروں طرف سے زمین کو گھیرے میں لیے ہوئے نیلا آسمان سبھی کچھ شامل ہے۔ ’’ كَيْفَ ‘‘ کے ساتھ انھیں بنانے اور مزین کرنے کی کیفیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان کی بلندی، ان کی عظمت، ان کی مضبوطی، خوب صورتی اور ان کا کسی بھی خرابی یا خامی سے پاک ہونا سب ایسی چیزیں ہیں جنھیں دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ انھیں بنانے والا ہر چیز پر قادر ہے، وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ پھر آسمان، سورج ، چاند اور ستاروں کے اس نظام کو دیکھنے اور ان پر غور و فکر کرنے میں لوگوں کے اپنی عقل اور علم کے لحاظ سے مختلف درجے ہیں، آیت میں تمام طبقات کے لیے ہدایت کی روشنی موجود ہے۔ تفہیم القرآن میں ہے: ’’اس نظام کو آدمی کسی آلے کے بغیر اپنی آنکھ ہی سے دیکھ لے تو اس پر حیرت طاری ہو جاتی ہے، لیکن اگر دور بین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو ناپیداکنار ہے۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑے سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں (Galaxy) کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے۔ تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم تین ارب دوسرے تارے (ثوابت) موجود ہیں اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی دس لاکھ کہکشاؤں کا پتا دے رہا ہے۔ ان لاکھوں کہکشاؤں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور مشاہدے میں آئی ہے، خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کی معلوم کائنات اس کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے۔ اس عظیم کارگاہ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق، جس کا نام انسان ہے، اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے، کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہو جائے گی؟‘‘ 4۔ وَ مَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ: ’’ فُرُوْجٍ ‘‘ ’’فَرْجٌ‘‘ کی جمع ہے، شگاف، دراڑ، درز۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ ملک (۳، ۴) کی تفسیر۔ تفہیم القرآن میں ہے : ’’یعنی اپنی اس حیرت انگیز وسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظامِ کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں اور اس کا تسلسل کہیں جا کر ٹوٹ نہیں جاتا۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ جدید زمانے کے ریڈیائی ہیئت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ ’’منبع ۳ ج ۲۹۵‘‘ (Source3c,285) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعائیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ چار ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہوں گی۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخر کیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑا ہوا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرکے دراصل یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتا ہے کہ میری کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشاندہی بھی نہیں کر سکتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصور تمھارے دماغ میں کہاں سے آ گیا کہ تمھاری مہلتِ امتحان ختم ہو جانے کے بعد تم سے حساب لینے کے لیے میں تمھیں پھر زندہ کرکے اپنے سامنے حاضر کرنا چاہوں تو نہ کر سکوں گا۔ یہ صرف امکانِ آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے۔‘‘