أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ
کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی بن جائیں گے (تو پھر دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟) یہ واپسی [٤] تو (عقل سے) بعید ہے۔
1۔ ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا: ’’ اِذَا‘‘ فعل محذوف کا ظرف ہے : ’’أَيْ أَ نَرْجِعُ إِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ‘‘ ’’یعنی کیا ہم اس وقت دوبارہ لوٹیں گے جب ہم مر گئے اور مٹی ہو گئے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ رعد (۵) اور سورئہ صافات (۱۶)۔ 2۔ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِيْدٌ: یہ لوٹنا تو عقل سے بہت دور ہے، یعنی ان کے خیال میں ممکن ہی نہیں۔ 3۔ حقیقت یہ ہے کہ کفار نے جن باتوں کو باعث تعجب قرار دیا وہ قابل تعجب نہیں، بلکہ قابل تعجب کفار کی باتیں ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اس بات کو قابل تعجب قرار دیا کہ انھیں خبردار کرنے اور ڈرانے والا خود ان میں سے آیا، حالانکہ اپنی جنس کا فرد ڈرانے اور آگاہ کرنے میں زیادہ مخلص اور خیر خواہ ہوتا ہے۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے کوئی فرشتہ آتا، یا عربوں کی طرف کوئی چینی آتا۔ پھر وہ اس بات پر تعجب کر رہے ہیں کہ انسان رسول کیسے ہو گیا اور انھیں اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوتا کہ وہ پتھر کو رب مان کر اس کی پرستش کر رہے ہیں۔ پھر وہ مٹی ہو جانے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو عجیب کہہ رہے ہیں اور انھیں اس بات پر تعجب نہیں ہوتا کہ پہلی مرتبہ اسی مٹی سے انھیں پیدا کیا گیا اور زندگی عطا کی گئی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے قیامت کے انکار کی بات کو عجیب قرار دیا، فرمایا : ﴿وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ﴾ [ الرعد : ۵ ] ’’اور اگر تو تعجب کرے تو ان کا یہ کہنا بہت عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو کیا واقعی ہم یقیناً ایک نئی پیدائش میں ہوں گے۔‘‘ (بقاعی)