قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
آپ ان (بدویوں) سے کہئے : کیا تم اللہ کو اپنی دینداری جتلاتے [٢٦] ہو حالانکہ اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
قُلْ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِيْنِكُمْ ....: ’’ تُعَلِّمُوْنَ ‘‘ ’’عَلَّمَ يُعَلِّمُ تَعْلِيْمًا‘‘ (تفعیل) کا معنی سکھانا پڑھانا ہے۔ تعلیم کسی کو کوئی بات بتانے کا سب سے مضبوط اور پختہ طریقہ ہوتا ہے۔ چونکہ وہ بار بار اپنے ایمان کا اور دین دار ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، ان کے بار بار دعوے کو اللہ تعالیٰ نے سکھانا پڑھانا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کو سکھانے چلے ہو کہ تم پکے مومن اور دین دار ہو اور یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ اسے تمھارے دل کا حال معلوم نہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ تو آسمانوں کی ہر چیز کو اور زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور اللہ ہر چیز کو پوری طرح جاننے والا ہے۔ اس آیت میں قابلِ توجہ بات لفظ ’’ اللّٰهَ ‘‘ کا بار بار ذکر ہے : ﴿قُلْ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِيْنِكُمْ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ﴾ اپنا نام بار بار ذکر کرنے سے مقصود اپنی ہیبت اور عظمت کا احساس دلانا ہے کہ سوچو تم بار بار ایمان کا دعویٰ کرکے کسی عام ہستی کو نہیں بلکہ کائنات کے خالق و مالک کو سکھانے جا رہے ہو، جس کا نام ’’الله‘‘ ہے اور جس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔