قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
بدویوں نے کہا : ’’ہم ایمان لے آئے [٢٣] ہیں‘‘ آپ ان سے کہئے : تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے اور ابھی تک ایمان تو تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال [٢٤] سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا۔ اللہ یقیناً بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
1۔ قَالَتِ الْاَعْرَابُ: ’’ الْاَعْرَابُ ‘‘ کی تشریح کے لیے دیکھیں سورۂ توبہ (۹۷) کی تفسیر۔ یہاں ’’ الْاَعْرَابُ ‘‘ پر الف لام جنس کا نہیں بلکہ عہد کا ہے اور اس سے مراد تمام اعراب نہیں، کیونکہ ان میں کئی مخلص مومن بھی تھے۔ (دیکھیے توبہ : ۹۹) بلکہ مراد وہ بعض اعراب ہیں جو مدینہ کے گرد رہتے تھے اور اسلام کی قوت کو دیکھ کر مسلمان ہو گئے تھے، دل میں تکذیب بھی نہیں تھی کہ انھیں منافق کہا جا سکے، مگر ابھی تک کچھ تردّد باقی تھا اور ایمان و یقین پوری طرح دل میں داخل نہیں ہوا تھا، اس لیے یہ عمرۂ حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے۔ ان کا ذکر اس سے پہلے سورۂ فتح کی آیت (۱۱) : ﴿ سَيَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ﴾ میں بھی گزرا ہے۔ 2۔ اٰمَنَّا: سورت کی ابتدا میں ان اعراب کا ذکر ہے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب اور اسلام کے دوسرے احکام سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان آداب و احکام کی تلقین فرمائی اور جاہلیت کے فخر و غرور اور اس سے پیدا ہونے والی قباحتوں سے منع فرمایا۔ اس سلسلے میں واضح فرمایا کہ آدمی کو دوسروں پر فخر کا حق ہی نہیں، کیونکہ وہ عزت جو دوسروں پر برتری دلاتی ہے وہ صرف تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے، جس کا تعلق دل سے ہے اور دل کا حال صرف علیم و خبیر جانتا ہے۔ یہاں سے ان اعراب کے کچھ دعوے ذکر فرما کر، جن سے ان کے فخر کا اظہار ہوتا تھا، ان کی تردید فرمائی۔ سب سے پہلے ان کے اس دعوے کا ذکر فرما کر کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، اس کی نفی فرمائی۔ 3۔ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے۔ واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں عام طور پر ایمان اور اسلام ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں، جس میں دل کا یقین اور ظاہری فرماں برداری دونوں شامل ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد القیس کو ایمان کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ ایمان کلمۂ شہادت، نماز، روزے، زکوٰۃ، حج اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نے ’’ اِنَّ الدِّيْنُ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ‘‘ کہہ کر اپنی جناب میں معتبر دین اسلام کو قرار دیا اور ظاہر ہے وہاں وہی دین معتبر ہے جو دل کے یقین سے ہو، صرف ظاہری اعمال تو وہاں کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات اسلام سے مراد ظاہری احکام کی پابندی اور ایمان سے مراد قلبی یقین ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث جبریل میں ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ ایمان سے مراد دلی یقین اور اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات اسلام سے مراد دل سے مان لینا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهْدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ﴾ [الأنعام: ۱۲۵] ’’تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔‘‘ جس طرح بعض اوقات ایمان سے مراد صرف زبانی کلمہ پڑھنا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ﴾ [النساء:۱۳۶] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! (یعنی جنھوں نے ایمان کا اقرار کیا ہے) ایمان لے آؤ (یعنی دل سے مان لو)۔‘‘ یہاں فرمایا، ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں۔ یعنی ہم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے ہیں اور اس کے ظاہری احکام پر عمل شروع کر دیا ہے۔ یہاں الفاظ پر غور فرمائیں، اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’ قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ أَسْلَمْتُمْ ‘‘ ’’ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ تم مسلم ہو گئے ہو۔‘‘ بلکہ فرمایا : ﴿لَمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا ﴾ ’’تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے مومن ہونے کی نفی کے بعد ان کے مسلم ہونے کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ یہ فرمایا کہ تم مسلم ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلم وہی تسلیم ہو سکتا ہے جو مومن بھی ہو۔ اس کے ہاں اگر کسی کے دل میں یقین نہیں تو ظاہری اعمال کا بھی کچھ اعتبار نہیں۔ ہاں ظاہری طور پر اسلامی احکام کی پابندی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کا دعویٰ کرنے کی اجازت ہے۔ 4۔ وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ: ’’اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘‘ اس جملے سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ اگرچہ پکے مومن نہیں تھے مگر منافق بھی نہیں تھے، کیونکہ وہ دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا نہیں جانتے تھے۔ ان کے شک کی وجہ سے ان کے ایمان کی نفی کی گئی اور اگلی آیت میں مومن ان لوگوں کو قرار دیا جو ایمان لائے پھر انھوں نے شک نہیں کیا۔ ’’ لَمَّا ‘‘ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ اگرچہ وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، مگر آئندہ ان کے دلوں کے اندر ایمان داخل ہونے کی امید تھی۔ 5۔ وَ اِنْ تُطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَا يَلِتْكُمْ ....:’’ لاَ يَلِتْ ‘‘ اصل میں ’’ لاَ يَلِيْتُ ‘‘ تھا، ’’ وَ اِنْ تُطِيْعُوْا ‘‘ شرط کا جواب ہونے کی وجہ سے تاء پر جزم آ گئی، تو یاء اور تاء دو ساکن جمع ہونے کی وجہ سے یاء گر گئی۔ ’’لَاتَ يَلِيْتُ‘‘ کسی کے حق میں کمی کرنا۔ یعنی اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے ان دونوں کی اطاعت کی شرط اوّل ان پر سچے دل سے ایمان و یقین رکھنا ہے۔ اس میں انھیں اخلاص و یقین کی ترغیب دلائی ہے، یعنی اسلام کے احکام پر ثواب کی امید بھی اس وقت ہو سکتی ہے جب ظاہر و باطن سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہو۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد اعمال کا پورا ثواب دینا اور اس میں کمی نہ کرنا صرف اللہ کا کام ہے، رسول کا نہیں۔ اس لیے ’’لاَ يَلِتْ‘‘ واحد کا صیغہ استعمال فرمایا۔ 6۔ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: یعنی اطاعت کے بعد پہلی کوتاہیوں کو اللہ معاف کر دے گا، کیونکہ وہ گناہوں پر بے حد پردہ ڈالنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔