هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں [٣٥] کو ان کی قربان گاہ تک پہنچنے سے روکے رکھا۔ اور اگر (مکہ میں) کچھ مومن مرد اور مومن عورتیں نہ ہوتیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے ( اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ جنگ کی صورت میں) تم انہیں پامال کردو گے [٣٦]، پھر (ان کی وجہ سے) تمہیں نادانستہ کوئی پشیمانی لاحق ہوگی (تو تمہیں لڑنے سے نہ روکا جاتا اور روکا اس لئے گیا) تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں [٣٧] داخل کرے۔ اگر مومن ان سے الگ ہوگئے ہوتے تو ان (اہل مکہ)[٣٨] میں سے جو کافر تھے انہیں ہم دردناک سزا دیتے۔
1۔ هُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: اس سے اہلِ مکہ کی اس زیادتی کا بیان مقصود ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عار قرار دیا اور وہ یہ کہ اللہ کے رسول پر ایمان لانے کے بجائے کفر پر اڑ گئے اور انھوں نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں داخلے اور اس کے طواف سے اور عمرہ کے دوسرے ارکان ادا کرنے سے روک دیا اور لڑائی پر آمادہ ہو گئے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان لڑنے کی نیت سے نہیں آئے تھے، نہ وہ پوری طرح ہتھیار لائے تھے، بلکہ وہ حالت احرام میں تھے۔ لڑنا تو ایک طرف رہا وہ اس حالت میں کسی کو ایذا بھی نہیں دے سکتے تھے۔ 2۔ وَ الْهَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ: ’’الْهَدْيَ‘‘ مصدر بمعنی اسم مفعول : ’’أَيْ اَلْأَنْعَامُ الْمَهْدِيَّةُ‘‘ وہ چوپائے جو کعبہ میں قربانی کے لیے لائے جاتے ہیں۔ یہ لفظ مصدر ہونے کی وجہ سے واحد جمع اور مذکر و مؤنث سب پر استعمال ہوتا ہے۔ ’’ مَعْكُوْفًا ‘‘ ’’عَكَفَ يَعْكُفُ‘‘(ن) سے اسم مفعول ہے۔ ’’عَكَفَ‘‘لازم بھی آتا ہے جس کا معنی ’’ایک جگہ ٹھہرنے کو لازم کر لینا ‘‘ ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ فِي الْمَسٰجِدِ ﴾ [ البقرۃ:۱۸۷] ’’جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو۔‘‘ یہاں متعدی استعمال ہوا ہے : ’’عَكَفَهُ أَيْ حَبَسَهُ۔‘‘ ’’ مَعْكُوْفًا ‘‘ جسے ایک جگہ روک کر رکھا گیا ہو۔ ’’الْهَدْيَ‘‘ پر نصب اس لیے آیا ہے کہ اس کا عطف ’’ صَدُّوْكُمْ ‘‘ میں ضمیر مخاطب پر ہے اور ’’ مَعْكُوْفًا ‘‘ ’’ الْهَدْيَ ‘‘ سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا اور تمھیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دیا، اس حال میں کہ وہ اپنے حلال ہونے کی جگہ پہنچنے سے روکے ہوئے تھے۔ یعنی قربانیوں کو بھی مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا جو عمرہ اور حج کی قربانیوں کے حلال ہونے. کی اصل جگہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ ہدی یعنی قربانی کے اونٹ لے کر آئے تھے، جب کفار نے اس سال مکہ میں داخلے اور عمرہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور اسے آئندہ سال کے لیے مؤخر کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر وہ جانور قربان کر دیے اور سر منڈا کر احرام کھول دیا۔ 3۔ وَ لَوْ لَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤْمِنٰتٌ ....: ’’ تَطَـُٔوْهُمْ ‘‘ ’’وَطِئَ يَطَأُ وَطْأً‘‘ (س) روندنا، پامال کرنا۔ یہ مضارع معلوم سے جمع مذکر حاضر ہے۔ ’’ مَعَرَّةٌ‘‘ عیب، گناہ، نقصان۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس موقع پر جنگ نہ ہونے دینے کی دو وجہیں بیان فرمائی ہیں : ایک یہ کہ مکہ میں مشرکین کے ساتھ کئی مومن مرد اور مومن عورتیں بھی موجود تھیں، جن کا مسلمانوں کو علم نہیں تھا۔ ان میں سے کچھ وہ تھے جو مسلمان ہو چکے تھے مگر انھوں نے اپنا ایمان چھپا رکھا تھا اور کچھ وہ تھے جو کھلم کھلا مسلمان ہو چکے تھے مگر بے بسی کی وجہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہیں کر سکتے تھے اور کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ اگر مکہ پر حملہ ہوتا تو مشرکین کے ساتھ وہ مومن مرد اور مومن عورتیں بھی روند دیے جاتے جو مسلمانوں کے لیے عیب کا باعث ہوتا کہ انھوں نے اپنے ہی بھائی بہنوں کو قتل کر دیا، حالانکہ ان کا یہ قتل لاعلمی کی بنا پر ہوتا۔ عیب کا باعث ہونے سے مراد کفار کی طرف سے عیب لگانا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ہی بھائی مار دیے اور وہ رنج و الم بھی جو اپنے بھائیوں کو قتل کرنے سے مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوتا، ورنہ جنگ کے دوران کفار میں رہنے والے کسی مسلمان کو قتل کرنے پر نہ دیت ہے نہ کفارہ اور نہ ہی ملامت۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ روک کر یہ نوبت ہی نہ آنے دی کہ مسلمانوں پر کوئی الزام آ سکے۔ واضح رہے کہ ’’ وَ لَوْ لَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ ‘‘ سے ’’ بِغَيْرِ عِلْمٍ ‘‘ تک جملہ شرط ہے، جزا اس کی محذوف ہے، کیونکہ وہ خود واضح ہو رہی ہے، یعنی اگر یہ مانع نہ ہوتا ’’تو تمھارے ہاتھ نہ روکے جاتے، بلکہ اہلِ مکہ پر حملہ کر دیا جاتا۔‘‘ 4۔ لِيُدْخِلَ اللّٰهُ فِيْ رَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَآءُ: یہ اس وقت جنگ سے مسلمانوں کے ہاتھ روک دینے کی دوسری وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین میں سے بہت سے لوگوں کو ایمان کی توفیق عطا فرما کر اپنی رحمت میں داخل کرنا چاہتا تھا، جو کفار اور مسلمانوں کی صلح اور باہمی میل جول ہی سے ممکن تھا۔ اگر لڑائی ہو جاتی تو انھیں سوچنے سمجھنے اور اسلام قبول کرنے کا موقع ہی نہ ملتا اور نہ معلوم کتنے ہی کفر کی حالت میں مارے جاتے۔ پھر واقعی اس صلح کی بدولت بے شمار لوگ اسلام میں داخل ہوئے، سنہ ۶ہجری میں آنے والے مسلمان صرف چودہ سو تھے، دو سال کے قلیل عرصے میں مکہ فتح کرنے کے لیے آنے والوں کی تعداد دس ہزار تھی اور مکہ فتح ہونے اور مشرکین کو عام معافی کے اعلان پر پورا مکہ مسلمان ہو گیا۔ (والحمد للہ) 5۔ لَوْ تَزَيَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ....: ’’ تَزَيَّلُوْا ‘‘ ’’ تَزَيَّلَ يَتَزَيَّلُ تَزَيُّلاً ‘‘ (تفعّل) ایک دوسرے سے جدا ہونا۔ یعنی اگر اس موقع پر مکہ میں رہنے والے مسلم و کافر کی پوری طرح تمیز ہوتی اور وہ لوگ جو مسلمان ہو چکے تھے یا آئندہ ان کی قسمت میں مسلمان ہونا لکھا تھا، کفار سے الگ اور نمایاں ہوتے تو ہم اہلِ مکہ کے کفار کو ایسی درد ناک سزا دیتے کہ یا تو لڑائی میں مارے جاتے یا قید ہو کر ذلیل و خوار ہوتے۔ 6۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ ایمان والوں کا وجود دنیا میں کفار کے لیے بھی باعث رحمت ہے، اس طرح کہ ان کی موجودگی کی وجہ سے بعض اوقات کفار بھی عذاب سے بچ جاتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ انفال (۳۳)۔