وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
اور بہت سے اموال غنیمت بھی جو وہ حاصل کریں گے اور اللہ بڑا غالب ہے، حکمت والا [٢٧] ہے۔
1۔ وَ مَغَانِمَ كَثِيْرَةً يَّاْخُذُوْنَهَا: اس سے مراد خیبر اور یہود کی دوسری بستیاں ہیں جو کسی خاص مزاحمت کے بغیر مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔ صفی الرحمن مبارک پوری لکھتے ہیں : ’’خیبر مدینہ سے شمال کی طرف اسّی (۸۰) میل کے فاصلے پر ایک بہت بڑا شہر تھا، جس میں کئی قلعے اور بہت سے باغات تھے۔ ابن اسحاق نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے واپس آ کر مدینہ میں ذوالحجہ اور محرم کا کچھ حصہ ٹھہرے، پھر محرم کے باقی دنوں میں خیبر کی طرف نکلے۔‘‘ (الرحیق المختوم) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( اِفْتَتَحْنَا خَيْبَرَ، وَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَلاَ فِضَّةً، إِنَّمَا غَنِمْنَا الْبَقَرَ وَالْإِبِلَ وَالْمَتَاعَ وَالْحَوَائِطَ )) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ خیبر: ۴۲۳۴ ] ’’ہم نے خیبر فتح کیا اور ہمیں سونا چاندی غنیمت میں نہیں ملا، ہمیں صرف گائے بیل، اونٹ، سامان اور باغات غنیمت میں ملے۔‘‘ خیبر کی فتح کے نتیجے میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی غنیمتوں کا اندازہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کی ایک روایت سے ہوتا ہے، انھوں نے فرمایا : (( مَا شَبِعْنَا حَتّٰي فَتَحْنَا خَيْبَرَ )) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ خیبر : ۴۲۴۳ ] ’’ہم نے سیر ہو کر نہیں کھایا حتیٰ کہ خیبر فتح کیا۔‘‘ اور عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : (( لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرُ قُلْنَا الْآنَ نَشْبَعُ مِنَ التَّمْرِ )) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ خیبر : ۴۲۴۲ ] ’’جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا، اب ہم کھجوریں پیٹ بھر کر کھائیں گے۔‘‘ الرحیق المختوم میں ہے : ’’اس فتح کے نتیجے میں مہاجرین کے حصے میں اتنی زمین اور باغات آئے کہ انھوں نے کھجوروں کے وہ درخت انصار کو واپس کر دیے جو انصار نے مدینہ میں انھیں دے رکھے تھے۔‘‘ 2۔ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا: چونکہ کفار کی تعداد اور سازو سامان کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کے پیش نظریہ بات ممکن نظر نہیں آتی تھی، اس جملے کے ساتھ اس فتح و غنیمت کا سبب بیان فرمایا۔ بقاعی نے فرمایا: ’’اس واؤ کے ساتھ مقدر جملے پر عطف ہے : ’’أَيْ بِعِزَّةِ اللّٰهِ وَ حِكْمَتِهِ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا‘‘ یعنی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عزت و حکمت کی بدولت ہوا اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ نہ اس پر کوئی غالب آ سکتا ہے، نہ اس کی تدبیر میں کسی خطا کی نشان دہی کر سکتا ہے۔