لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا
کوئی اندھا یا لنگڑا یا بیمار [٢٢] اگر جہاد میں شامل نہ ہو تو اس پر کوئی تنگی نہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان لے، اللہ اسے ایسے باغوں [٢٣] میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گے اور جو سرتابی کرے اللہ اسے دردناک عذاب دے گا۔
1۔ لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ ....: ان تینوں میں سے اندھے اور لنگڑے کا عذر دائمی ہے اور بیمار کا عارضی، جو بیماری ختم ہونے پر ختم ہو جاتا ہے۔ جہاد سے پیچھے رہنے والوں پر عتاب کے بعد فرمایا کہ نابینا، لنگڑا اور بیمار اگر جہاد کے لیے نہ نکلیں تو ان پر کوئی حرج نہیں۔ 2۔ وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ....: جو شخص واقعی عذر کی وجہ سے جہاد کے لیے نہ نکل سکے مگر خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کا مطیع اور خیر خواہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہتی ہیں۔ ایسے لوگ پیچھے رہنے کے باوجود جہاد میں شریک ہی سمجھے جائیں گے۔ مزید دیکھیے سورۂ توبہ کی آیت (۹۱) : ﴿ مَا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ ﴾ کی تفسیر میں مذکور حدیث۔ 3۔ وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ....: بقاعی نے اس کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ واؤ عطف کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے ایک جملہ محذوف ہے : ’’ أَيْ فَمَنْ تَخَلَّفَ مِنَ الضُّعَفَاءِ فَلَا حَرَجَ عَلَيْهِ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهُ....‘‘ یعنی پھر اندھے، لنگڑے اور مریض میں سے جو شخص پیچھے رہ جائے اس پر کوئی حرج نہیں اور جو پیچھے نہ رہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے عذر کے باوجود نکل پڑے تو اللہ تعالیٰ اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہتی ہیں اور جو عذر کی وجہ سے نہیں بلکہ اطاعت سے جی چراتے ہوئے جہاد سے منہ پھیرے گا اللہ تعالیٰ اسے عذاب الیم دے گا۔ جہاد کے لیے نہ نکلنے کے بعض مقبول عذر اس سے پہلے سورۂ توبہ (۹۱، ۹۲) میں بیان ہو چکے ہیں۔