لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا
تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف کردے [٢] اور آپ پر اپنی نعمت پوری کردے اور آپ کو سیدھی راہ پر چلائے
1۔ لِيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ:’’ لِيَغْفِرَ ‘‘ کا لام ’’لامِ عاقبت‘‘ ہے، یعنی ہم نے آپ کو یہ فتح مبین عطا فرمائی تاکہ آپ کو اس کے نتیجے میں چار عظیم نعمتیں حاصل ہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرما رہے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کا حق ادا کیا، میرا پیغام پہنچایا، جان مار کر محنت کی، اپنی زبان اور تلوار کے ساتھ جہاد کیا، مسلمانوں کی ایک مخلص ترین جماعت تیار کی، سختی کے موقع پر سختی اور نرمی کے موقع پر نرمی کی اور مختصر سے عرصے میں وہ کامیابی حاصل کی جو طویل مدتوں میں کوئی حاصل نہ کر سکا، حتیٰ کہ وہ کام پورا کر دکھایا جو ہم نے آپ کے ذمے لگایا تھا۔ اب آپ اپنی محنت کا پھل اٹھائیں گے، جس سے دنیا اور آخرت میں آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، چنانچہ ہم نے آپ کے لیے واضح فتح عطا کی، جس کے نتیجے میں پہلی نعمت آپ کو یہ ملی کہ نبوت سے پہلے اور بعد کے گناہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخش دیے۔ 2۔ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ کیا نبی سے بھی گناہ کا صدور ہو سکتا ہے؟ بعض حضرات نے انبیائے کرام علیھم السلام سے گناہ صادر ہونے کو ناممکن قرار دیا ہے ،کیونکہ ان کے نزدیک نبی سے گناہ کا صادر ہونا اس کی شان کے خلاف ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ قرآن مجید نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لفظ ’’ذَنْبٌ‘‘ استعمال کیا ہے، جس کا معروف و مشہور معنی گناہ ہے۔ اس لیے فارسی اور اردو تقریباً تمام مترجمین نے یہاں ’’ذَنْبٌ‘‘ کا معنی گناہ کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ آپ کی طرف لفظ گناہ کی نسبت سے آپ کی شان میں کمی کا اظہار ہوتا ہے، تو جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انبیاء کے گناہوں کو اپنے گناہوں کی طرح سمجھ لیتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیھم السلام کو جتنا عظیم اور بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے اسے ملحوظ رکھتے ہوئے وہ اپنی معمولی کوتاہیوں اور لغزشوں کو گناہ قرار دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انھیں ’’ذنوب‘‘ کہہ کر ان سے استغفار کا حکم دیتا ہے، اسی لیے وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں استغفار کرتے ہیں جس سے ان کا مرتبہ پہلے سے بھی بلند ہو جاتا ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام سے خطا کے ساتھ قبطی قتل ہو گیا تو انھوں نے دعا کی : ﴿رَبِّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ فَغَفَرَ لَهٗ ﴾ [ القصص : ۱۶ ] ’’اے میرے ر ب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، سو تو مجھے بخش دے، تو اللہ نے اسے بخش دیا۔‘‘ آدم علیہ السلام منع کرنے کے باوجود بھول کر اس پودے میں سے کھا بیٹھے تو کہا : ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ﴾ [ الأعراف : ۲۳ ] ’’اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اس استغفار کے نتیجے میں انھیں ’’مجتبيٰ‘‘ بنا لیا، فرمایا : ﴿ ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيْهِ وَ هَدٰى﴾ [ طٰہٰ : ۱۲۲ ] ’’پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، تو اس پر مہربانی فرمائی اور ہدایت دی۔ ‘‘ یونس علیہ السلام بغیر اجازت قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تو مچھلی کے پیٹ سے اللہ تعالیٰ کو پکارا: ﴿لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ﴾ [الأنبیاء: ۸۷] ’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقیناً میں ظلم کرنے والوں سے ہو گیا ہوں۔ ‘‘ اس استغفار کے نتیجے میں انھیں وہ مقام حاصل ہوا جو خطا نہ ہونے اور استغفار نہ کرنے کی صورت میں کبھی حاصل نہ ہوتا، فرمایا : ﴿ فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ﴾ [ القلم : ۵۰ ] ’’پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، پس اسے نیکوں میں شامل کردیا۔ ‘‘ بنی آدم کا فرشتوں سے یہی فرق ہے کہ فرشتوں سے نہ خطا ہوتی ہے، نہ انھیں استغفار کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ وہ استغفار سے حاصل ہونے والا بلند مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ انبیائے کرام علیھم السلام ہماری طرح کبیرہ گناہوں کا ارتکاب یا دیدہ و دانستہ نافرمانی نہیں کرتے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے فرماں بردار بندے ہوتے ہیں، البتہ ان سے بشری تقاضوں کے پیشِ نظر کوئی معمولی کوتاہی یا اجتہادی خطا ہو جاتی ہے۔ انبیاء کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس خطا یا کوتاہی پر قائم نہیں رہنے دیتا، بلکہ وحی کے ذریعے سے فوراً اصلاح فرما دیتا ہے، انبیاء کے معصوم ہونے کا یہی مطلب ہے۔ کسی امتی کو، خواہ وہ کتنے بلند منصب پر فائز ہو یہ امتیاز حاصل نہیں کہ اس کی خطا کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے اصلاح کی جائے۔ انبیاء سے سرزد ہونے والی یہ معمولی کوتاہیاں یا اجتہادی خطائیں بھی ان کے مقام کے پیشِ نظر خود انھیں اتنی بڑی نظر آتی ہیں کہ وہ بار بار اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ’’ذنوب‘‘ سے مغفرت مانگنے کا حکم دیا، جس پر عمل کرتے ہوئے آپ بے حد استغفار کرتے تھے۔ دیکھیے سورۂ محمد کی آیت (۱۹) کی تفسیر۔ استغفار کی وہ مختلف دعائیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جناب میں کیا کرتے تھے ان تمام دعاؤں میں لفظ ’’ذنب‘‘ استعمال ہوا ہے۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کا معاملہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذنوب کا اقرار کر کے استغفار کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے اور پچھلے ذنوب کی مغفرت کی خوش خبری دے رہے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی اس بات کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے آپ کے پہلے اور پچھلے ذنوب معاف فرما دیے ہیں، جیسا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں : (( أَنَّ نَبِيَّ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُوْمُ مِنَ اللَّيْلِ حَتّٰی تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ تَصْنَعُ هٰذَا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! وَقَدْ غَفَرَ اللّٰهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ أَفَلاَ أُحِبُّ أَنْ أَكُوْنَ عَبْدًا شَكُوْرًا؟ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿لیغفر لک اللّٰہ ما تقدم....﴾: ۴۸۳۷ ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات اتنا قیام کرتے حتیٰ کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ’’یا رسول اللہ! آپ اس طرح کیوں کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ بخش دیے ہیں؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو کیا میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں ؟‘‘ یہی وجہ ہے کہ پہلے تقریباً سبھی ترجمہ کرنے والوں نے ’’ذنب ‘‘ کا معنی گناہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ کرنے والے قرآن مجید کے یہ سب خدام کیا نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے ناآشنا تھے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گناہ گار ٹھہرتے ہیں۔ آپ ان حضرات سے پوچھیں کہ آپ ’’ذنب‘‘ کا ترجمہ کرکے بتایے، ان میں سے ایک صاحب نے ’’ لِيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ‘‘ کا ترجمہ کیا ہے : ’’تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی اگلی پچھلی سب خطائیں معاف فرما دے۔‘‘ ایک اور صاحب نے ترجمہ کیا ہے : ’’تاکہ اللہ تعالیٰ تمھاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے۔‘‘ اپنے خیال میں ان حضرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گناہ گار ہونے سے تو بچا لیا مگر انھیں خطا کار اور کوتاہی کا مرتکب ہونے سے تو نہ بچا سکے، بتائیے آپ نے کون سا معرکہ سر کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک آدھ معمولی گناہ و خطا سے آدمی نہ گناہ گار کے لقب کا حق دار بنتا ہے اور نہ ہی اسے خطا کار یا کوتاہ کار کہہ سکتے ہیں۔ بعض حضرات نے یہاں ذنب کا معنی الزام کیا ہے اور ترجمہ کیا ہے : ’’تاکہ اللہ تعالیٰ آپ پر لگائے گئے پہلے پچھلے تمام الزامات دور کر دے۔‘‘ ان حضرات سے کوئی پوچھے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن کاموں پر باز پرس فرمائی اور ساتھ ہی انھیں معاف کر دینے کی بشارت بھی دے دی، کیا وہ سب الزامات تھے جو اللہ تعالیٰ نے غلط قرار دے کر دور فرما دیے؟ مثلاً فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾ [ التحریم: ۱ ] ’’اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟ تو اپنی بیویوں کی خوشی چاہتا ہے، اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ ﴾ [التوبۃ:۴۳] ’’اللہ نے تجھے معاف کردیا، تو نے انھیں کیوں اجازت دی، یہاں تک کہ تیرے لیے وہ لوگ صاف ظاہر ہو جاتے جنھوں نے سچ کہا اور تو جھوٹوں کو جان لیتا۔ ‘‘ اور فرمایا : ﴿ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَ اللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾ [الأنفال: ۶۷] ’’کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے، تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ تَخْشَى النَّاسَ وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ﴾ [ الأحزاب : ۳۷ ] ’’اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا، حالانکہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ تو اس سے ڈرے۔‘‘ اصل بات یہ ہے کہ ایسے حضرات غلو کی وجہ سے ہر اس شخص کو گستاخِ رسول قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں جو ان کی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائی صفات کا مالک قرار نہ دے، آپ کو عالم الغیب نہ مانے، مختارِ کل تسلیم نہ کرے، یا یہ نہ مانے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطا ہو سکتی ہی نہیں۔ ان میں سے بعض حضرات نے اس مقام پر ذنب کا معنی تو گناہ ہی کیا ہے، مگر اس آیت کے ترجمے میں تحریفِ قرآن کے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا اس امت کو مہلت دینے کا فیصلہ نہ ہوتا تو ان کانام و نشان مٹا دیا جاتا۔ چنانچہ ان میں سے ایک صاحب نے ’’ لِيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ‘‘ کا ترجمہ کیا ہے : ’’تاکہ اللہ تمھارے سبب سے گناہ بخشے تمھارے اگلوں کے اور تمھارے پچھلوں کے۔‘‘ ایک اور صاحب نے ترجمہ کیا ہے : ’’تاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امت (کے ان تمام افراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے (جنھوں نے آپ کے حکم پر جہاد کیے اور قربانیاں دیں)۔‘‘ ان لوگوں کی تحریف پر جرأت دیکھیے، لفظ ’’ ذَنْۢبِكَ ‘‘ کا معنی ’’تیرے گناہ‘‘ کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتا، مگر یہ لوگ اس کا ترجمہ ’’تیری امت کے اگلے پچھلے گناہ‘‘ کر رہے ہیں اور حبِ رسول کے اتنے بڑے اجارہ دار بنے ہوئے ہیں کہ جو ان کی طرح تحریف نہ کرے، یا ان کی تحریف پر شاباش نہ کہے وہ ان کی نظر میں حبِ رسول سے آشنا ہی نہیں۔ ان لوگوں کے ترجمے کے مطابق تو تمام امتیوں کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو چکے ہیں، اب اگر کوئی قتل یا زنا یا چوری کرتا ہے تو اس پر حد کیسی؟ اسے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی مل چکی ہے۔ یہ سب نتیجہ اسی غلو کا ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا : (( لاَ تُطْرُوْنيْ كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ ، فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰهِ وَرَسُوْلُهُ )) [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿ واذکر فی الکتاب مریم....﴾: ۳۴۴۵] ’’مجھے حد سے مت بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا، کیونکہ میں تو صرف اس کا بندہ ہوں، سو تم ’’اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ‘‘ کہو۔‘‘ 3۔ اس مقام پر اکثر مفسرین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لفظ ذنب کی توجیہ کرتے ہوئے ایک جملہ مسلّم قول کے طور پر ذکر فرمایا ہے : ’’ حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَيِّئَاتُ الْمُقَرَّبِيْنَ ‘‘ ’’نیک لوگوں کی نیکیاں مقرب لوگوں کی برائیاں ہوتی ہیں۔‘‘ یہ جملہ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ہر گز نہیں، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ بات کہنے والا کون ہے، مگر اکثر مفسر اور مصنف اسے اندھا دھند بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ نہ یہ سوچتے ہیں کہ نیکی بدی کیسے بن سکتی ہے اور نہ یہ خیال فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے مطابق ابرار و مقربین کی یہ تقسیم سرے سے غلط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون مقرب ہو گا؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچھلی رات اٹھ کر جن آیات کی تلاوت کیا کرتے تھے ان میں مذکور دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہے : ﴿ وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ﴾ [آل عمران: ۱۹۳] ’’ اور ہمیں ابرار کے ساتھ فوت کر۔‘‘ پھر وہ کون سے ابرار ہیں جن کی نیکیاں مقربین کی بدیاں ہیں؟ 4۔ وَ يُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ: یہ دوسری نعمت ہے جو صلح حدیبیہ کے نتیجے میں حاصل ہونے کی خوش خبری دی گئی۔ اس سے مراد وہ بہت سی نعمتیں عطا کرنا ہے جو اس سے پہلے آپ کو عطا نہیں کی گئی تھیں، مثلاً قریش، اہلِ مکہ اور دوسرے لوگوں کا فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا، تمام دشمنوں اور مخالفوں کا زیر ہو جانا، پورے ملک عرب کا آپ کے زیر نگیں ہو جانا اور دین کی تکمیل وغیرہ، جن کا اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد پورا کر دیا گیا اور اعلان ہو گیا : ﴿ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ﴾ [ المائدۃ : ۳ ] ’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا۔‘‘ 5۔ وَ يَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا: یہ تیسری نعمت کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکام پر عمل، ان کی تبلیغ و جہاد، سلطنت کے معاملات اور فتح و کامرانی کے حصول کے بارے میں آپ کو بالکل سیدھے راستے پر چلائے گا۔ اگرچہ یہ سب کچھ پہلے بھی آپ کو حاصل تھا، مگر اس کے بعد جس وسعت کے ساتھ حاصل ہوا وہ پہلے حاصل نہ تھا۔ مزید دیکھیے سورۂ فاتحہ کی آیت : ﴿ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ﴾ کی تفسیر۔