وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ
ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے تاآنکہ یہ معلوم [٣٥] کرلیں کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور صابر کون؟ اور تمہارے احوال کی جانچ پڑتال کریں گے
1۔ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ ....: یہ مسلمانوں سے عام خطاب ہے کہ منافقوں کے ذکر سے یہ خیال نہ کرنا کہ تم امتحان سے مستثنیٰ ہو۔ ہر گز نہیں، بلکہ ہم ہر حال میں مختلف احکام کے ساتھ تمھاری آزمائش کریں گے، حتیٰ کہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو جان لیں اور تمھارے حالات کی خوب جانچ پڑتال کر لیں۔ 2۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو جس طرح گزشتہ اور موجودہ کاموں کا علم ہے وہ ان کاموں کو بھی جانتا ہے جو آئندہ ہونے والے ہیں، پھر اس بات کا کیا مطلب کہ یہاں تک کہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو جان لیں؟ حافظ ابن کثیر نے فرمایا: ’’مراد یہ ہے کہ ہم اس بات کا واقع ہونا جان لیں۔ اس لیے ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اس جیسے الفاظ کے بارے میں فرمایا کہ’’ نَعْلَمَ ‘‘ کا معنی ’’ نَرٰي ‘‘ ہے، یعنی حتیٰ کہ ہم دیکھ لیں۔‘‘ (ابن کثیر) یعنی بے شک اللہ تعالیٰ پہلے جانتا ہے کہ آئندہ کیا ہو گا، مگر یہ بات کہ وہ کام واقع ہو چکا ہے اس کے علم میں اسی وقت آتی ہے جب وہ کام واقع ہو اور اس وقت ہی وہ اس کے واقع ہونے کو جانتا اور دیکھتا ہے۔ جو کام واقع ہی نہیں ہوا اس کے متعلق کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ واقع ہو چکا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ آلِ عمران (۱۴۲)۔