فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ
پھر (اے منافقو!) تم لوگوں سے کیا بعید ہے کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ تو زمین [٢٦] پر فساد کرنے لگو اور قطع رحمی کرنے لگو
فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ ....: ’’هَلْ‘‘ کے معنی کی تحقیق کے لیے دیکھیے سورۂ دہر کی پہلی آیت: ﴿ هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ ﴾ کی تفسیر۔ یہاں یہ ’’ قَدْ ‘‘ (یقیناً) کے معنی میں ہے۔ ’’ عَسَيْتُمْ ‘‘ تم قریب ہو، تم سے امید ہے۔ ’’ تَوَلَّيْتُمْ ‘‘ یا تو ’’تَوَلَّي الْوِلاَيَةَ‘‘ سے ہے، حاکم یا صاحب اقتدار ہونا، یا ’’ تَوَلّٰي عَنْهُ‘‘ سے ہے، منہ موڑنا، اعراض کرنا۔ اگر حاکم ہونے سے ہو تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ طاعت اور قول معروف اختیار کرو، کیونکہ اگر تم اسی نفاق کی حالت میں حکومت پر متمکن ہو جاؤ تو یقیناً تم قریب ہو کہ ایمان سے خالی ہونے کی وجہ سے اسلام سے پہلے والی حالت کی طرف پلٹ جاؤ گے، اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرنے کے لیے زمین میں فساد کرو گے اور اپنی رشتہ داریاں بری طرح قطع کر دو گے۔ اور اگر ’’ تَوَلَّيْتُمْ ‘‘ کا معنی اعراض اور منہ موڑنا ہو تو مطلب یہ ہے کہ تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ جب جہاد کا حکم قطعی اور لازمی ہو جائے تو اپنا صدق ثابت کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، کیونکہ اگر تم نے جہاد سے منہ موڑا تو ہر گز امن و امان سے نہیں رہو گے، بلکہ نافرمانی اور قطع رحمی کرو گے، جس کے نتیجے میں خانہ جنگی، نافرمانی اور لوٹ مار کی وہی حالت لوٹ آئے گی جو اسلام سے پہلے تھی۔ ’’ تُقَطِّعُوْا ‘‘ (تفعیل) میں مبالغہ ہے، یعنی تم اپنی رشتہ داریاں بری طرح قطع کرو گے، یا بالکل قطع کر دو گے۔