فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ
پس آپ جان لیجئے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اپنے لئے نیز مومن مردوں اور عورتوں کے لئے بھی گناہ کی معافی [٢٢] مانگیے۔ اور اللہ تمہارے چلنے پھرنے کے مقامات کو بھی جانتا اور آخری ٹھکانے [٢٣] کو بھی۔
1۔ فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ: اس فاء کو فصیحہ (اظہار کرنے والی) کہتے ہیں، یعنی اس سے اس شرط کا اظہار ہوتا ہے جو گزشتہ کلام سے معلوم ہوتی ہے۔ اس آیت کا تعلق سورت کی گزشتہ تمام آیات کے ساتھ ہے، یعنی جب تم کفار اور ایمان والوں کا حال جان چکے اور یہ بھی کہ بھلائی اور کامیابی کا دارومدار توحید اور اطاعت پر ہے اور برائی اور ناکامی کا دار ومدار شرک اور نافرمانی پر ہے تو یہ بات بھی جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (ابو السعود) ابوالعالیہ اور ابن عیینہ نے فرمایا کہ اس کا تعلق اس سے پہلی آیت کے ساتھ ہے، یعنی جب ان کے پاس قیامت آ گئی تو جان لو کہ اس کے قائم ہونے پر اللہ کے سوا بھاگنے یا پناہ حاصل کرنے کی کوئی جگہ نہیں (کیونکہ معبود برحق وہی ہے)۔ (بغوی) 2۔ یہاں ایک سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس حقیقت کو پہلے ہی جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَ أَعْلَمَكُمْ بِاللّٰهِ أَنَا )) [ بخاري، الإیمان، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ أنا أعلمکم باللّٰہ....‘‘:۲۰ ] ’’یقیناً میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا علم رکھنے والا ہوں۔‘‘ پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ’’جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ اہل علم نے اس کے متعدد جوابات دیے ہیں اور وہ سب درست ہیں۔ ایک یہ کہ ’’ فَاعْلَمْ‘‘ کے مخاطب اگرچہ بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر خطاب امت کے ہر فرد کو ہے۔ دلیل اس کی آیت کے آخری الفاظ ہیں جن میں صراحتاً سب کو مخاطب فرمایا ہے: ﴿وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوٰىكُمْ ﴾ ’’اور اللہ تمھارے چلنے پھرنے کو اور تمھارے ٹھہرنے کو جانتا ہے۔‘‘ جیسا کہ سورۂ طلاق کے شروع میں فرمایا: ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَ لَا يَخْرُجْنَ اِلَّا اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ﴾ [الطلاق:۱] ’’اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدت کو گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں) لائیں۔‘‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ ’’ فَاعْلَمْ ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ ’’ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ‘‘ کے علم پر ثابت اور قائم رہو، جیسا کہ فرمایا: ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِيْ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ﴾ [النساء: ۱۳۶] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس نے اس سے پہلے نازل کی۔‘‘ اکثر مفسرین نے یہاں ’’ فَاعْلَمْ ‘‘ کا یہی معنی بیان فرمایا ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ کسی حقیقت کے علم کی ابتدا اس کی معرفت سے ہوتی ہے کہ دل اسے جان لے، پھر اس کے یقین کا مرتبہ آتا ہے اور اس علم کی تکمیل اس سے ہوتی ہے کہ اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرے۔ مطلب یہ ہے کہ ’’لا الٰه الا اللّٰه‘‘ کی معرفت اور اس کا یقین حاصل کرو اور اس کے تقاضوں پر عمل کرو۔ ظاہر ہے کہ علم اور یقین کے بے شمار درجے ہیں اور عمل کے لحاظ سے درجوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کا قول: ﴿ وَ لٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِيْ ﴾ [البقرۃ: ۲۶۰] (اور لیکن اس لیے کہ میرا دل پوری تسلی حاصل کر لے) اس کی دلیل ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا: ﴿ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا ﴾ [طٰہٰ : ۱۱۴ ] ’’اور تو کہہ اے میرے رب! مجھے علم میں زیادہ کر۔‘‘ اور کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے : چومی گویم مسلمانم بلرزم کہ دانم مشکلات لا الٰہ را ’’جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں، کیونکہ میں ’’لا الٰه‘‘ کی مشکلات کو جانتا ہوں۔‘‘ سورۂ نساء کی آیت (۱۳۶): ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ﴾ کا ایک معنی یہ بھی کیا گیا ہے کہ اپنے ایمان کے تقاضے کے مطابق عمل کرو۔ خلاصہ یہ کہ ہر لمحے ’’لا الٰه الا اللّٰه‘‘ کی معرفت، اس کے یقین اور اس پر عمل میں اضافے کی کوشش کرتے رہو۔ چوتھا یہ کہ ہر وقت اس حقیقت کو یاد اور نظر کے سامنے رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، گویا ’’اِعْلَمْ‘‘ بمعنی ’’اُذْكُرْ‘‘ ہے۔ 3۔ اس آیت سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ ہر قول اور عمل سے پہلے علم کا حصول لازم ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿اِعْلَمُوْا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ ﴾ [ الحدید : ۲۰ ] ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل ہے۔‘‘ اس کے بعدفرمایا: ﴿ سَابِقُوْا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ ﴾ [ الحدید : ۲۱ ] ’’اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کی طرح ہے۔‘‘ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں فرمایا: ’’بَابُ الْعِلْمِ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ لِقَوْلِ اللّٰهِ تَعَالٰي: ﴿ فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ﴾ فَبَدَأَ بِالْعِلْمِ‘‘ [ بخاري، العلم، قبل ح : ۶۸ ] ’’علم مقدم ہے قول اور عمل پر، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۂ محمد میں) فرمایا : ’’پس تو جان لے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ اس آیت میں اللہ نے علم کو پہلے بیان کیا ہے۔‘‘ 4۔ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ : قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے رہے اور امت کو بھی اس کی تاکید فرماتے رہے۔ چنانچہ اس سے متعلق یہاں دو احادیث نقل کی جاتی ہیں، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: (( اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ خَطِيْئَتِيْ وَجَهْلِيْ وَ إِسْرَافِيْ فِيْ أَمْرِيْ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّيْ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ جِدِّيْ وَهَزْلِيْ وَخَطَئِيْ وَعَمْدِيْ وَكُلُّ ذٰلِكَ عِنْدِيْ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّيْ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ وَأَنْتَ عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ )) [ مسلم، الذکر و الدعاء، باب في الأدعیۃ : ۲۷۱۹ ] ’’اے اللہ! میری خطا کو، میرے جہل کو، میرے کام میں میری زیادتی کو اور ان تمام گناہوں کو میرے لیے بخش دے جنھیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ! میرے سنجیدگی سے کیے ہوئے کاموں کو، میرے مذاق سے کیے ہوئے کاموں کو، میرے بھول کر کیے ہوئے اور جان بوجھ کر کیے ہوئے گناہوں کو میرے لیے بخش دے اور یہ سب میرے پاس موجود ہیں۔ اے اللہ! تو مجھے وہ سب گناہ بخش دے جو میں نے پہلے کیے اور جو میں نے بعد میں کیے اور جو چھپا کر کیے اور جو علانیہ کیے اور جنھیں تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا : (( وَاللّٰهِ! إِنِّيْ لَأَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَ أَتُوْبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً )) [ بخاري، الدعوات، باب استغفار النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الیوم واللیلۃ:۶۳۰۷ ] ’’اللہ کی قسم! میں دن میں ستر (۷۰) بار سے زیادہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔‘‘ 5۔ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ: یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہے اور امت کے تمام افراد کو بھی کہ وہ اپنے علاوہ دوسرے تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی استغفار کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان والوں پر اپنے مومن بھائیوں کے لیے استغفار واجب ہے۔ پہلے جلیل القدر انبیاء علیھم السلام کا بھی یہی عمل رہا ہے، جیسا کہ نوح علیہ السلام نے دعا کی: ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَ لِوَالِدَيَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا تَبَارًا ﴾ [ نوح : ۲۸ ] ’’اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اس کو جو مومن بن کر میرے گھر میں داخل ہو اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو اور ظالموں کو ہلاکت کے سوا کسی چیز میں نہ بڑھا۔‘‘ اور ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی: ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَ لِوَالِدَيَّ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ ﴾ [ إبراہیم : ۴۱ ] ’’اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور ایمان والوں کو، جس دن حساب قائم ہوگا۔‘‘ 6۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام ایمان والوں کو مومن مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کا جب خود حکم دیا تو یہ دلیل ہے کہ وہ اسے قبول بھی فرمائے گا۔ ظاہر ہے کہ ہر مومن، مرد ہو یا عورت، زندہ ہو یا فوت شدہ، استغفار کی ان دعاؤں میں شامل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر امت کے آخری آدمی نے ایمان والوں کے حق میں کی ہیں اور جس کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار مقبول بندوں کی مغفرت کی دعائیں ہوتی ہوں اس کی مغفرت سے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے کسی بھی مومن کے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ وہ جہنمی ہے، یا اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا، خواہ وہ کتنا زیادہ گناہ گار ہو۔ شرط یہ ہے کہ وہ ایمان کی دولت اپنے دامن میں رکھتا ہو اور شرک کی نجاست سے آلودہ نہ ہو۔ 7۔ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوٰىكُمْ: ’’ مُتَقَلَّبٌ‘‘ اور ’’مَثْوٰي‘‘ ’’ تَقَلَّبَ يَتَقَلَّبُ‘‘ (تفعل) اور ’’ ثَوَي يَثْوِيْ‘‘ (ض) سے مصدر میمی بھی ہو سکتے ہیں اور ظرف مکان بھی ۔ پہلی صورت میں معنی ہے تمھارا چلنا پھرنا اور تمھارا ٹھہرنا اور دوسری صورت میں معنی ہے تمھارے چلنے پھرنے کی جگہ اور تمھارے ٹھہرنے کی جگہ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھاری نقل و حرکت کو اور تمھارے ٹھہرنے کو اور تمھارے چلنے پھرنے کے اور تمھارے ٹھہرنے کے مقامات کو خوب جانتا ہے۔ اس میں کفار اور نافرمانوں کے لیے وعید ہے اور اللہ کے فرماں بردار بندوں کے لیے بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھاری جائز یا ناجائز ہر حرکت و سکون سے واقف ہے اور واقف ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ فرماں برداروں کو انعام دے گا اور نافرمانوں کو سزا دے گا۔