إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ یقیناً انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہ رہی ہیں اور جو کافر ہیں وہ چند روز فائدہ اٹھا لیں، وہ اس طرح کھاتے ہیں جیسے چوپائے [١٣] کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔
1۔ اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ....: دنیا میں پہلی قوموں پر آنے والے عذابوں کا اور ایمان والوں کی نصرت کا ذکر فرمانے کے بعد آخرت میں دونوں کا انجام ذکر فرمایا۔ چونکہ مومن اپنے ایمان اور عمل صالح کے تقاضوں کے پابند رہے، انھوں نے دنیا کی نعمتوں اور لذتوں سے فائدہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند رہ کر اٹھایا۔ وہی کھایا اور پہنا جو ان کے رب نے ان کے لیے حلال فرمایا، وہ تمام حرام کردہ اشیاء سے بچے۔ شراب، ریشم اور سونے کے استعمال سے پرہیز کرتے رہے۔ زنا، چوری، دوسرے کا حق کھانے، غرض ہر معصیت سے اجتناب کیا۔ ان کی لذتیں اٹھانے کی بے شمار حسرتیں ان کے دل میں رہ گئیں اور انھوں نے یہاں ایک قیدی کی سی زندگی گزاری، جو صرف انھی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو انھیں قید کرنے والا مہیا کرے۔ اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ انھیں عظیم الشان باغات میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہتی ہیں اور فرمائے گا کہ یہاں تمھارے دل کی ہر خواہش اور ہر طلب پوری ہو گی، بلکہ وہ کچھ ملے گا جو نہ تمھاری آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال ہی آیا۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اور اکثر جگہ باغات اور نہروں ہی کا ذکر فرمایا ہے، اس لیے کہ دنیا کے مکانوں اور کوٹھیوں کا ایک حصہ گھر کے چمن پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے کہ پودوں، چشموں اور نہروں سے انسان کو فطری طور پر محبت ہے، مگر اصل مکان ان سے کہیں وسیع، خوبصورت اور قیمتی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان مکانات اور ان میں موجود رہنے سہنے، کھانے پینے، بیوی بچوں اور دوسری بے شمار اشیاء کی عظمت و شوکت کا اندازہ ان باغوں اور نہروں سے لگا لو جو بطورِ چمن ان مکانوں کے ساتھ ہیں۔ 2۔ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَ يَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ: ایمان والوں کے برعکس کفار کھانے پینے اور دنیا کی لذتیں اٹھانے میں کسی پابندی کی پروا نہیں کرتے، انھیں حلال و حرام، اپنے یا دوسرے کے حق سے کوئی غرض نہیں، وہ خنزیر، مردار اور ہر حرام چیز کھاتے، شراب پیتے، زنا کرتے غرض دل کا ہر ارمان پورا کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مہیا نہ ہو سکنے کی وجہ سے وہ کسی لذت سے فائدہ نہ اٹھا سکیں، کیونکہ دنیا میں ہر شخص کو اتنا ہی ملتا ہے جو مالک نے لکھ دیا ہے، مگر اپنی حسرتیں پوری کرنے میں وہ کوئی کسر باقی نہیں رہنے دیتے۔ دنیا ان کے لیے جنت ہے جہاں وہ ہر قید اور پابندی سے آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کاحال ہو بہو جانوروں جیسا ہے جو کھانے پینے، رہنے سہنے اور اپنی جنسی خواہش کی تکمیل میں کسی قید کے پابند نہیں ہیں، ان میں سے ہر طاقتور کمزور سے اس کا حق بھی چھین لیتا ہے۔ انھیں نہ عاقبت یاد ہے نہ باز پرس کی کوئی فکر ہے ۔ 3۔ وَ النَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ: چونکہ انھوں نے اپنے رب سے کفر کیا، نہ ایمان لائے نہ عمل صالح کیا، نہ اس کے احکام کی پابندی کی، اس لیے ان کا مستقل ٹھکانا آگ ہے۔ 4۔ بعض لوگ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ جانور کھڑے ہو کر کھاتے پیتے ہیں، اس لیے کھڑے ہو کر کھانا پینا منع ہے، مگر اس مقصد کے لیے اس آیت کے بجائے احادیث سے استدلال کرنا چاہیے اور اس مسئلے میں اتنی ہی سختی کرنی چاہیے جتنی احادیث سے ثابت ہے، کیونکہ ضرورت کے وقت سنت سے اس کی اجازت بھی ثابت ہے۔ 5۔ چونکہ جانوروں کی ساری جدوجہد ہی کھانے پینے کے لیے ہوتی ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے کم کھانے پر زور دیا ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِيْ مِعًی وَاحِدٍ وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِيْ سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ)) [ بخاري، الأطعمۃ، باب المؤمن یأکل في معی واحد ....: ۵۳۹۳ ] ’’مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔‘‘ اور مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ، بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلاَتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ )) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء في کراھیۃ کثرۃ الأکل : ۲۳۸۰، و قال الألباني صحیح ] ’’کسی آدمی نے پیٹ سے برا برتن نہیں بھرا۔ ابنِ آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں۔ سو اگر کوئی چارہ نہیں تو تیسرا حصہ اس کے کھانے کے لیے، تیسرا اس کے پینے کے لیے اور تیسرا سانس کے لیے ہے۔‘‘ جس طرح شریعت نے ہر بات میں انسانی فطرت کا خیال رکھا ہے اسی طرح یہاں بھی اگر کبھی پیٹ بھر کر کھا لے تو اس کی گنجائش ہے، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار اصرار پر دودھ پینا ہے، حتیٰ کہ انھیں کہنا پڑا کہ اب میرے پیٹ میں اس کی گنجائش نہیں۔ [ دیکھیے بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ....: ۶۴۵۲ ]