وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ
اور (وہ واقعہ بھی یاد کیجئے) جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو آپ کی طرف لے آئے تھے جو قرآن سن [٤١] رہے تھے۔ جب وہ اس مقام پر آ پہنچے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے : خاموش ہوجاؤ۔ پھر جب قرآن پڑھا [٤٢] جاچکا تو وہ ڈرانے والے بن کر اپنی قوم کے پاس واپس [٤٣] آئے۔
1۔ وَ اِذْ صَرَفْنَا اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ....:’’ اِذْ ‘‘ سے پہلے ’’اُذْكُرْ‘‘ محذوف ہے جس کا عطف اس سے پہلے مذکور آیت ’’ وَ اذْكُرْ اَخَا عَادٍ ‘‘ پر ہے۔ یعنی کفارِ مکہ کے لیے ہود علیہ السلام اور ان کی قوم عاد کا ذکر کیجیے جو ان سے کہیں زیادہ قوت و شوکت والے تھے کہ اپنے رسول کو جھٹلانے پر ان کا کیا حال ہوا، اسی طرح اہلِ مکہ کے اردگرد کی بستیوں کے کفر پر اصرار کا انجام کیا ہوا، تاکہ اہلِ مکہ کو ان کے انجام سے عبرت ہو اور وہ کفر و شرک سے باز آ جائیں۔ ’’ وَ اِذْ صَرَفْنَا اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ‘‘ اور ان کفار کے لیے اس وقت کا ذکر کیجیے جب ہم نے جنوں کے ایک گروہ کا رخ آپ کی طرف پھیرا اور انھوں نے آپ سے قرآن سنا۔ مقصد کفارِ مکہ کو شرم دلانا ہے کہ اپنی جنس انسان، اپنی نسل عرب، اپنی قوم قریش اور اپنے شہر مکہ میں مبعوث رسول کی زبان سے ان پر نازل شدہ قرآن جیسی فصیح و بلیغ اور معجز کتاب مدت سے سننے کے باوجود نہ تم پر قرآن کا کچھ اثر ہوا، نہ تم رسول پر ایمان لائے اور نہ شرک کی نجاست سے پاک ہو سکے، ذرا جنوں کے اس گروہ کو بھی دیکھو جو اچانک اس موقع پر پہنچا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھ رہے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنس یا قوم کے فرد نہیں تھے بلکہ ایک الگ جنس سے تھے، شہر بھی ان کا کوئی اور تھا، راستے میں انھیں قرآن سننے کا اتفاق ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم بھی نہ تھا کہ جنوں کا کوئی گروہ میرا قرآن سن رہا ہے، اس کے باوجود ان کے طرزِ عمل اور اپنے طرزِ عمل کا موازنہ کر لو۔ 2۔ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْا اَنْصِتُوْا: جب وہ اس موقع پر حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ خاموش ہو جاؤ، تاکہ ہم غور سے قرآن سن سکیں۔ ان جنوں کو دیکھو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے خود ہی اس حکم پر عمل کر رہے ہیں جو سورۂ اعراف میں ہے: ﴿ وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ [ الأعراف : ۲۰۴ ] ’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ اور اپنے آپ کو دیکھو، تمھاری روش وہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے حم السجدہ میں فرمایا ہے: ﴿ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۲۶ ] ’’ اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔‘‘ وہ ایک دوسرے کو خاموش رہ کر سننے کی تلقین کر رہے ہیں اور تم ایک دوسرے کو سننے سے روک رہے ہو۔ کم از کم سن تو لو، تاکہ ان کی طرح رحم کا دروازہ تمھارے لیے بھی کھل سکے، صرف تکبر اور غلبے کی ہوس میں نہ پڑے رہو، ایسا نہ ہو کہ یہ ہوس قومِ عاد کی طرح تمھیں بھی برباد کر دے۔ 3۔ فَلَمَّا قُضِيَ وَ لَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ: جب قرآن کی قراء ت پوری ہو چکی تو وہ نہ صرف یہ کہ خود ایمان لے آئے بلکہ اپنی قوم کو بھی کفر کے انجام سے خبردار کرنے کے لیے ان کی طرف واپس پلٹ گئے، کیونکہ ایمان کی تکمیل اسی سے ہوتی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند نصیحتیں فرمائیں، ان میں سے ایک یہ تھی : (( وَ أَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ، تَكُنْ مُؤْمِنًا )) [ ابن ماجہ، الزھد، باب الورع والتقوٰی : ۴۲۱۷ ] ’’لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، مومن بن جاؤ گے۔‘‘ 4۔ طبری نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ انھوں نے ’’ وَ اِذْ صَرَفْنَا اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ ‘‘ کے بارے میں فرمایا : ’’یہ اہل نصیبین میں سے سات (مرد جن) تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی قوم کی طرف پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا۔‘‘ [ الطبري : ۳۱۵۷۴ ] ابن کثیر کے محقق نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ 5۔ جنوں کا یہ گروہ کس موقع پر آیا؟ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ جن کی شانِ نزول اور اس کی ابتدائی آیات کی تفسیر۔