سورة الأحقاف - آیت 25

تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر چیز کو تہس نہس کر رہی تھی [٣٨]۔ آخر ان کا یہ حال ہوا کہ ان کے گھروں کے سوا کوئی چیز نظر نہ آئی تھی۔ ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیا کرتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۭ بِاَمْرِ رَبِّهَا: یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وہ ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی‘‘ حالانکہ کئی چیزیں اس کے بعد بھی موجود رہیں، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے سورۂ ہود (۵۸) میں فرمایا ہے کہ ہود علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے اس عذاب سے محفوظ رہے۔ اہلِ علم نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ لفظ ’’ كُلٌّ‘‘ سے کائنات کی ہر چیز مراد نہیں ہوتی، بلکہ ہر مقام پر اس کی مناسبت سے کل چیزیں مراد ہوتی ہیں، جیسا کہ ہُد ہُد نے ملکہ سبا کے متعلق کہا تھا: ﴿ وَ اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ﴾ [ النمل : ۲۳ ] ’’اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔‘‘ ظاہر ہے اس سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کی حکومت کے لیے ضرورت ہوتی ہے، ورنہ ہر چیز میں سے تو اسے حصہ نہیں دیا گیا تھا۔ اسی طرح یہاں ہر چیز کو برباد کرنے سے مراد ہر اس چیز کو برباد کرنا ہے جسے برباد کرنے کا اسے حکم دیا گیا تھا، جیسا کہ ’’ بِاَمْرِ رَبِّهَا ‘‘ (اپنے رب کے حکم کے ساتھ) کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ چنانچہ ہود علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس آندھی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا، کیونکہ اسے یہی حکم تھا، جیسا کہ سورۂ ہود (۵۸) میں ہے۔ فَاَصْبَحُوْا لَا يُرٰى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ ....: ’’ فَاَصْبَحُوْا‘‘ سے مراد یہاں ’’انھوں نے صبح کی‘‘ نہیں، بلکہ یہاں ’’أَصْبَحَ‘‘ ’’صَارَ‘‘ کے معنی میں ہے، یعنی ’’وہ اس طرح ہو گئے‘‘ کیونکہ وہ ہوا صرف ایک رات نہیں چلی کہ صبح ان کی یہ حالت ہوئی ہو، بلکہ سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی اور ایسی تند و تیز اور غضب ناک ہو کر چلی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ ﴾ [ الذاریات : ۴۲ ] ’’جو کسی چیز کو نہ چھوڑتی تھی جس پر سے گزرتی مگر اسے بوسیدہ ہڈی کی طرح کر دیتی تھی۔‘‘ درخت، آدمی، جانور، مکان غرض ہر چیز ہوا نے اکھاڑ پھینکی۔ آخر مکانوں کے کھنڈروں یا گری ہوئی کھوکھلی کھجوروں کے تنوں جیسے لاشوں کے سو اکچھ نظر نہ آتا تھا، جو نشانِ عبرت بنے ہوئے تھے کہ اللہ کے مجرموں کا یہ حال ہوتا ہے۔ مراد کفار مکہ کو سمجھانا ہے کہ کفر پر اصرار کے نتیجے میں تمھارا بھی یہ حال ہو سکتا ہے۔