أُولَٰئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
یہی لوگ ہیں جن پر جنوں اور انسانوں کی ان سے پہلے کی جماعتوں سمیت اللہ کا (عذاب کا) قول صادق [٢٨] آتا ہے بلاشبہ یہی لوگ خسارہ [٢٩] اٹھانے والے ہیں۔
1۔ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ: یعنی والدین کے گستاخ اور آخرت کے منکر ہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی بات ثابت ہو چکی، جو اس نے پہلے فرما دی تھی: ﴿ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ﴾ [ ھود:۱۱۹] ’’کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے ضرور ہی بھروں گا۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۱۸)۔ 2۔ فِيْ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ: یعنی جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں میں شامل ہو کر جو اہلِ جہنم میں سے ان سے پہلے گزرے۔ ان بدترین لوگوں کا ساتھ خود بدترین سزا ہے۔ 3۔ اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِيْنَ: ’’إِنَّ‘‘ تعلیل کے لیے ہے، یعنی ان کا یہ انجام اس لیے ہوا کہ انھیں جو سرمایۂ حیات دنیا میں آخرت کی تیاری کے لیے دیا گیا تھا انھوں نے اس سے نفع حاصل کرنے کے بجائے اصل راس المال بھی گنوا دیا اور یہی حقیقی خسارہ ہے جو انھوں نے اٹھایا۔