وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ وَهَٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَىٰ لِلْمُحْسِنِينَ
حالانکہ اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (تورات) جو رہنما اور رحمت تھی، موجود تھی۔ اور یہ کتاب (قرآن) اس کی تصدیق کرنے والی ہے۔ جو عربی [١٧] زبان میں ہے تاکہ ظالموں کو متنبہ کرے اور نیک عمل کرنے والوں کو بشارت دے۔
1۔ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً: ’’ كِتٰبُ مُوْسٰى‘‘ کا عطف ’’شَاهِدٌ ‘‘ پر ہے اور ’’قَبْلِهٖ ‘‘ کی ضمیر اس ’’ شَاهِدٌ ‘‘ کی طرف جا رہی ہے : ’’أَيْ شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ عَلٰي مِثْلِهِ وَ شَهِدَ مِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوْسٰي عَلٰي مِثْلِهِ‘‘ یعنی بنی اسرائیل کے ایک شہادت دینے والے نے اس کی شہادت دی اور اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب نے بھی اس کے حق ہونے کی شہادت دی جو لوگوں کی پیشوائی کرنے والی تھی۔ لوگ اس کی پیروی اور اس کے احکام پر عمل کرتے تھے (دیکھیے مائدہ : ۴۴) اور وہ لوگوں کے لیے سراسر رحمت تھی۔ 2۔ اکثر مفسرین نے ’’ قَبْلِهٖ ‘‘ کی ضمیر کا مرجع قرآن کو قرار دیا ہے، یعنی اس قرآن سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی، لیکن مجھے وہ ترکیب بہتر معلوم ہوتی ہے جو اوپر ذکر ہوئی۔ 3۔ وَ هٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا: اور یہ کتاب یعنی قرآن موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کی تصدیق کرتی ہے، یعنی یہ عین ان پیش گوئیوں کے مطابق ہے جو تورات میں کی گئی تھیں، جس سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور دونوں کی بنیادی تعلیم بھی ایک ہے۔ حالانکہ وہ عبرانی زبان میں تھی اور یہ عربی زبان میں ہے اور ایسے شخص پر نازل ہوئی جو عبرانی جانتا ہی نہیں بلکہ اُمی ہے، عربی بھی نہیں پڑھ سکتا۔ یہ دلیل ہے کہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں جو تمام زبانیں پیدا کرنے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ 4۔ لِّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ....: تاکہ یہ ان لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرائے جنھوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کرکے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا ہے اور نیک عمل کرنے والوں کے لیے عظیم خوش خبری ہو۔