أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ خود ہی اسے بنا لایا [٩] ہے۔ آپ ان سے کہئے : اگر میں نے خود بنا لیا ہے تو تم مجھے اللہ (کی گرفت) سے بچانے کی کچھ بھی [١٠] طاقت نہیں رکھتے۔ جن باتوں میں تم لگے ہوئے ہو اللہ انہیں خوب جانتا ہے۔ میرے اور تمہارے درمیان وہی گواہی دینے کے لئے کافی ہے اور وہ بخش دینے والا [١١] اور رحم کرنے والا ہے۔
1۔ اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ: یہ ایمان نہ لانے کا ایک اور بہانہ ہے۔ ’’واؤ‘‘ کے ساتھ عطف کے بجائے حرف ’’ اَمْ ‘‘ لایا گیا ہے، یعنی ان کی یہ بات کہ یہ جادو ہے ایک طرف رہی، اس سے بھی عجیب بات سنو، وہ کہتے ہیں کہ اس نے قرآن خود تصنیف کیا ہے اور جھوٹ باندھتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ حالانکہ اس میں وہ اپنی ہی بات کی نفی کر رہے ہیں، کیونکہ اگر یہ جادو ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام نہیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے تو جادو نہیں۔ 2۔ قُلْ اِنِ افْتَرَيْتُهٗ فَلَا تَمْلِكُوْنَ لِيْ مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا: ’’ اِنِ افْتَرَيْتُهٗ ‘‘ کا جواب محذوف ہے جو ’’ فَلَا تَمْلِكُوْنَ لِيْ ‘‘ سے سمجھ میں آ رہا ہے : ’’أَيْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ عَاقَبَنِيَ اللّٰهُ عَلَي الْإِفْتِرَاءِ فَلَا تَمْلِكُوْنَ لِيْ مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا ‘‘ ’’یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر میں نے جھوٹ گھڑنے کا جرم کیا ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ مجھے جھوٹ گھڑنے کی سزا دے گا، پھر تم اللہ تعالیٰ سے چھڑانے کے لیے میرے کسی کام نہ آؤ گے۔‘‘ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ (44) لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِزِيْنَ﴾ [ الحاقۃ : ۴۴ تا ۴۷ ] ’’اور اگر وہ ہم پر کوئی بات بنا کر لگا دیتا۔ تو یقیناً ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔ پھر یقیناً ہم اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی بھی( ہمیں) اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔‘‘ 3۔ هُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِيْضُوْنَ فِيْهِ ....: یعنی جب تم اس حد تک آ گئے کہ اس کلام کو افترا اور انسانی کلام کہنے لگے جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال لانے سے بھی تم قاصر رہے اور سب کے سامنے واضح ہو گیا کہ وہ انسان کا کلام نہیں اور نہ کوئی انسان ایسا کلام کر سکتا ہے تو اب تم سے بحث کا کوئی فائدہ نہیں، میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ ان باتوں کو خوب جانتا ہے جو تم بناتے رہتے ہو۔ کبھی اسے جادو کہتے ہو، کبھی کہانت، کبھی شعر اور کبھی خود تصنیف کرکے اللہ تعالیٰ پر باندھا ہوا طوفان۔ وہی میرے اور تمھارے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہے، کیونکہ وہ ہم دونوں کی ہر بات سے واقف اور ہر موقع کا گواہ ہے۔ 4۔ وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ: اس جملے کی مناسبت اس مقام پر دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ تمھارا قرآن کو افترا اور نبی کو مفتری کہنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ غفور و رحیم نہ ہوتا، بلکہ کوئی بے رحم اور سخت گیر مالک ہوتا تو تمھیں ایک سانس کی مہلت بھی نہ ملتی۔ یہ اس کی مغفرت اور رحمت ہی ہے کہ ایسی گستاخیوں کے باوجود وہ تمھیں فوراً نہیں پکڑتا، بلکہ مہلت دیتا ہے کہ تم کسی وقت ہی پلٹ آؤ۔ دوسری مناسبت یہ ترغیب ہے کہ اب بھی اس ہٹ دھرمی سے باز آ جاؤ تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت و رحمت تمھارا انتظار کر رہی ہیں، کیونکہ وہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی۔ نہ اس کی مغفرت کی کوئی انتہا ہے نہ رحمت کی، تم نے جو کچھ کیا وہ اب بھی معاف کر دے گا۔ ’’الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ‘‘ ضمیر ’’ هُوَ ‘‘ کی خبر ہے، جس پر الف لام آنے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا ہے، یعنی غفور و رحیم بس وہی ہے اور کوئی ہے ہی نہیں جو تمھارے گناہوں پر پردہ ڈال دے اور تم پر بے حد رحم کرنے والا ہو، پھر اس سے بھاگ کر کہاں جاؤ گے؟