وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں۔ سب کچھ ہی اس نے تمہارے لئے کام [١٧] پر لگا رکھا ہے۔ غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں
1۔ وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ: پچھلی آیت اور اس آیت میں ’’ سَخَّرَ لَكُمْ ‘‘ کا ’’لام‘‘ انتفاع کے لیے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے سمندر کو اور آسمان و زمین میں موجود ہر چیز کو تمھارے فائدے کے لیے مسخر اور اپنا تابع فرمان بنا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس نے یہ سب کچھ تمھارے تابع فرمان بنا دیا ہے۔ آسمان و زمین، سورج چاند اور سمندر تو بہت دور کی بات ہے انسان کا اپنا سانس اور دل کی دھڑکن اس کے اپنے تابع فرمان نہیں، پھر اس کا تسخیرِ کائنات کا دعویٰ دیوانے کی بڑ کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ لفظ ’’ جَمِيْعًا مِّنْهُ ‘‘ اس بات کی تصریح کے لیے ہے کہ ان تمام چیزوں کو تمھارے فائدے کے لیے کام میں لگا دینا صرف اس کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات متعدد مقامات پر فرمائی ہے کہ اس نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو انسان کے فائدے کے لیے مسخر کر رکھا ہے۔ دیکھیے سورۂ حج (۶۵) اور سورۂ لقمان (۲۰)۔ 2۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ: یعنی جو بھی اپنے آپ کو ضد اور ہٹ دھرمی سے الگ کرکے غور و فکر سے کام لے گا، وہ یہ دیکھ کر کہ یہ تمام نعمتیں عطا کرنے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کا شکر کرے گا اور اس اکیلے کی عبادت کرے گا۔