لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَىٰ ۖ وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ
وہاں وہ موت کا مزہ نہیں چکھیں گے۔ بس پہلی موت جو دنیا میں [٣٧] آچکی (سو آچکی) اور (اللہ) انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے گا
1۔ لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُؤْتٰی بِالْمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ فَيُنَادِيْ مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! فَيَشْرَئِبُّوْنََ وَ يَنْظُرُوْنَ فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا ؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ، هٰذَا الْمَوْتُ وَكُلُّهُمْ قَدْ رَاٰهُ، ثُمَّ يُنَادِيْ يَا أَهْلَ النَّارِ ! فَيَشْرَئِبُّوْنَ وَ يَنْظُرُوْنَ فَيَقُوْلُ هَلْ تَعْرِفُوْنَ هٰذَا ؟ فَيَقُوْلُوْنَ نَعَمْ، هٰذَا الْمَوْتُ وَ كُلُّهُمْ قَدْ رَاٰهُ، فَيُذْبَحُ ثُمَّ يَقُوْلُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ ! خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ وَ يَا أَهْلَ النَّارِ! خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿ وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ﴾ وَهٰؤُلَاء فِيْ غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا ﴿ وَ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ عز وجل: ﴿ و أنذرھم یوم الحسرۃ﴾ : ۴۷۳۰ ] ’’موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا : ’’اے جنت والو!‘‘ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے۔ وہ کہے گا : ’’کیا تم اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں! یہ موت ہے۔‘‘ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے، پھر وہ آواز دے گا : ’’اے آگ والو!‘‘ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے، وہ کہے گا : ’’کیا تم اسے پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں! یہ موت ہے۔‘‘ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے، تو اسے ذبح کر دیا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا : ’’اے جنت والو! (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں اور اے آگ والو! (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ﴿وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ ﴾ [ مریم : ۳۹ ] ’’اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب فیصلہ کر دیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں۔‘‘ یعنی وہ سراسر دنیا کی غفلت میں ہیں اور وہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ مریم (۳۹)۔ 2۔ وَ وَقٰىهُمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ: یہاں ایک سوال ہے کہ جو شخص جنت میں داخل ہو گیا اس کا جہنم سے بچنا تو خود بخود ظاہر ہے، پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ انھیں بھڑکتی آگ سے بچا لے گا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ جنت کی قدر پوری طرح اس وقت معلوم ہوتی ہے جب اس کے پیشِ نظر یہ بات بھی ہو کہ اگر میں جہنم میں ہوتا تو میرا کیا حال ہوتا۔