إِنَّ هَٰؤُلَاءِ لَيَقُولُونَ
یہ لوگ تو یہ کہتے ہیں
اِنَّ هٰؤُلَآءِ لَيَقُوْلُوْنَ: یہاں موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ختم ہوا جو جملہ معترضہ کے طور پر درمیان میں آ گیا تھا اور دوبارہ سلسلۂ کلام کفارِ قریش کے ساتھ جوڑ دیا گیا، جو پہلے سے چلا آ رہا تھا اور کفار سے فرمایا تھا: ﴿ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ رَبُّكُمْ وَ رَبُّ اٰبَآىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَ (8) بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ يَّلْعَبُوْنَ ﴾ [ الدخان : ۸، ۹ ] ’’ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے، تمھارا رب ہے اور تمھارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔ بلکہ وہ ایک شک میں کھیل رہے ہیں۔‘‘ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے زندگی بخشنے اور موت دینے کو قیامت کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ کفار شک ہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ فرعون کی سرکشی اور غرقابی کے ذکر کے بعد کفارِ قریش کا ذکر ’’ هٰؤُلَآءِ ‘‘ (یہ لوگ) کہہ کر حقارت کے ساتھ فرمایا کہ فرعون جیسے قوت و شوکت اور رعب و دبدبے والے منکروں کا انجام سن چکے، اب ان لوگوں کی بات سنو جو اس کے مقابلے میں کچھ قوت نہیں رکھتے، یہ بھی ہمارے دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کو ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ کہتے ہیں۔