وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَىٰ عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے علم کی بنا پر اہل عالم [٢٤] پر ترجیح دی
1۔ وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ:’’اِخْتَرْنَا‘‘ ’’اِخْتَارَ يَخْتَارُ اِخْتِيَارًا‘‘ (افتعال) سے جمع متکلم ماضی معلوم ہے۔ یہاں بھی ’’ لَقَدْ ‘‘ لانے کا مقصد یہی ہے کہ اتنی پسی ہوئی قوم کو یکایک تمام دنیا پر برتری کیسے مل سکتی ہے؟ فرمایا قسم ہے کہ ہم نے انھیں تمام جہانوں پر چن لیا، پھر ہمارے چنے ہوؤں کو برتری کیوں حاصل نہ ہو گی۔ 2۔ عَلٰى عِلْمٍ: یعنی ہم نے بلاوجہ ان کا انتخاب نہیں کیا، بلکہ ہمیں ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں کا علم تھا اور ہم ان کی خامیوں اور کمزوریوں سے بھی واقف تھے۔ اس علم ہی کی بنا پر ہم نے ان کے زمانے کی تمام قوموں میں سے ان کا انتخاب کیا۔ 3۔ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ: ’’ الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ سے مراد ان کے زمانے کے جہان ہیں، کل جہان نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو: ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ ﴾ [ آل عمران : ۱۱۰ ]کہہ کر تمام امتوں سے بہتر قرار دیا ہے، کیونکہ ’’ كَانَ ‘‘ استمرار پر دلالت کر رہا ہے۔ ہاں بعض جزوی فضائل بنی اسرائیل میں ایسے ہیں جو انھی کی خصوصیت ہیں، مثلاً اتنے انبیاء کا ان میں معبوث ہونا، مگر مجموعی اور کلی لحاظ سے امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم افضل ہے۔