فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ
پھر نہ آسمان ان پر رویا [٢١] اور نہ زمین اور نہ ہی انہیں کچھ مہلت دی گئی
1۔ فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ : اس آیت کی تفسیر میں تین قول ہیں، تینوں میں سے جو بھی مراد لے لیں درست ہے۔ ایک یہ کہ ’’ السَّمَآءُ ‘‘ سے پہلے لفظ ’’أَهْلٌ‘‘ محذوف ہے، جیسے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے والد کو جا کر بتایا کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے، جس کی وجہ سے عزیز مصر نے اسے اپنے پاس روک لیا ہے۔ پھر یقین دلانے کے لیے کہا: ﴿ وَ سْـَٔلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا وَ الْعِيْرَ الَّتِيْ اَقْبَلْنَا فِيْهَا﴾ [ یوسف : ۸۲ ] ’’اور آپ اس بستی سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے بھی جس میں ہم آئے ہیں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس بستی والوں سے پوچھ لیں۔ اسی طرح یہاں مطلب یہ ہے کہ نہ ان پر آسمان والے روئے اور نہ زمین والے، بلکہ ہر ایک نے اطمینان کا سانس لیا اور ہر ظالم حکمران ٹولے کا یہی حشر ہوتا ہے۔ دوسرا قول یہ کہ اس سے مراد ان کی تحقیر اور ان کا مذاق اڑانا ہے۔ عرب کے ہاں جب کوئی بڑا آدمی فوت ہوتا تو وہ اس کی موت کو بہت بڑا حادثہ بتانے کے لیے کہتے کہ اس پر آسمان رویا، زمین روئی اور پہاڑ لرز اٹھے۔ مطلب یہ کہ اتنی شان و شوکت والے اور خدائی کا ڈنکا بجانے والے مرے تو ان لوگوں کی طرح جن کی نہ کوئی حیثیت ہوتی ہے اور نہ کسی کو ان کے مرنے کی پروا ہوتی ہے۔ تیسرا قول یہ کہ آیت کے ظاہر الفاظ کے مطابق آسمان و زمین نیک لوگوں کے مرنے پر روتے ہیں، مگر ان کے مرنے پر نہ آسمان رویا نہ زمین۔ یہ معنی بھی کچھ بعید نہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ڈر سے پتھروں سے نہریں پھوٹنے، ان کے پھٹ جانے اور اللہ کے خوف سے گر پڑنے کا ذکر فرمایا ہے (دیکھیے بقرہ : ۷۴) اور جس طرح کھجور کے درخت کا تنا (حنانہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے چھوڑ کر منبر پر خطبہ دینے کے وقت رویا تھا۔ 2۔ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِيْنَ: اور نہ وہ مہلت پانے والے ہوئے کہ توبہ کر لیتے، بلکہ آن کی آن میں ڈبو دیے گئے۔