وَأَن لَّا تَعْلُوا عَلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي آتِيكُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اور یہ کہ اللہ کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو [١٤]۔ میں تمہارے سامنے صریح سند پیش کرتا ہوں
1۔ وَ اَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَى اللّٰهِ: اور اللہ کے سامنے اونچے مت بنو، اس کے مقابلے میں سرکشی مت کرو۔ یعنی تمھارا مجھ پر ایمان نہ لانا دراصل اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی ہے، کیونکہ مجھے بھیجنے والا وہ ہے اور جو کچھ میں نے تمھیں کہا ہے وہ میری بات نہیں بلکہ اللہ کی بات ہے جو میں پوری امانت کے ساتھ تمھیں پہنچا رہا ہوں۔ دوسری بات یہ کہ کسی دوسرے کے غلام کو اپنا غلام بنا لینا بہت بڑی سرکشی ہے جو تم نے اللہ کے بندوں کو اپنا غلام بنا کر اس کے مقابلے میں اختیار کر رکھی ہے، اس لیے یہ سرکشی چھوڑ کر انھیں آزاد کر دو۔ 2۔ اِنِّيْ اٰتِيْكُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ: یعنی اگر تمھیں شک ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نہیں بھیجا تو میں اللہ کی طرف سے اپنے رسول ہونے کی واضح دلیل پیش کرنے والا ہوں جس سے تمھیں میری رسالت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہے گا۔ ’’ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ اگرچہ نکرہ ہے مگر اسم جنس ہونے کی وجہ سے اس سے مراد صرف ایک دلیل نہیں بلکہ عصائے موسیٰ سے لے کر وہ تمام معجزے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام پہلی مرتبہ فرعون کے پاس آنے سے لے کر مصر میں قیام کے آخری وقت تک دکھاتے رہے۔