وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ
ان سے پہلے ہم فرعون کی قوم کو آزما چکے [١١] ہیں۔ ان کے پاس ایک معزز [١٢] رسول آیا
1۔ وَ لَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ: یعنی ان کفارِ مکہ سے پہلے ہم نے فرعون کی قوم کو آزمایا، کبھی وسعت اور فراخی دے کر اور کبھی کوئی عذاب بھیج کر۔ ان کا بھی یہی حال تھا کہ جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے، یہ ہمارے ہنر کا کمال ہے اور جب ان پر عذاب آتا تو اسے موسیٰ علیہ السلام کی نحوست قرار دیتے، مگر پھر انھی سے درخواست کرتے کہ اپنے رب سے دعا کر، اگر اس نے یہ عذاب ہم سے ہٹا دیا تو ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے۔ مگر جب ان کی دعا سے وہ عذاب دور ہوتا تو فوراً عہد توڑ ڈالتے۔ آخر انجام ان کا یہ ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی بددعا سے ہم نے انھیں سمندر میں غرق کر دیا۔ (دیکھیے اعراف : ۱۳۰ تا ۱۳۶) مقصود ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور کفار کو عبرت دلانا ہے۔ 2۔ وَ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ كَرِيْمٌ: ’’ كَرِيْمٌ ‘‘ کا لفظ کسی بھی چیز میں سے اعلیٰ درجے کی چیز پر بولا جاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو کریم اس لیے فرمایا کہ وہ حسب نسب میں ان سب سے اونچے اور اخلاق و صفات میں نہایت بلند تھے اور اللہ کے ہاں اتنے عالی مرتبے والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان سے کلام فرمایا۔