سورة آل عمران - آیت 152

وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلاشبہ اللہ نے جو تم سے وعدہ کیا تھا اسے پورا کردیا جب کہ تم (جنگ احد میں ابتداًئ) کافروں کو اللہ کے حکم سے خوب قتل کر رہے تھے تاآنکہ تم نے بزدلی دکھلائی اور (نبی کے) حکم میں جھگڑنے لگے۔ اور اپنی پسندیدہ چیز (مال غنیمت) نظر آجانے کے بعد تم نے (اپنے سردار کے حکم کی) نافرمانی [١٣٩] کی۔ تم میں سے کچھ تو وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے اور کچھ آخرت چاہتے تھے۔ پھر اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کردیا تاکہ وہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور بے شک اللہ نے تمہارا یہ قصور [١٤٠] معاف کردیا کیونکہ وہ مومنوں کے لیے بڑے فضل والا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ:جنگ احد میں پہلے پہل اللہ تعالیٰ کی مدد مسلمانوں کے شامل حال رہی اور وہ مشرکین کو اللہ کے حکم سے خوب کاٹتے رہے، حتیٰ کہ جب فتح کے آثار نظر آنے لگے اور مشرکین اور ان کی عورتوں نے بھاگنا شروع کر دیا تو پچاس تیر انداز، جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک پہاڑی پر متعین کیا تھا، تاکہ ادھر سے مشرک حملہ آور نہ ہوں، انھوں نے مال غنیمت دیکھ کر باہم جھگڑنا شروع کر دیا۔ پچاس آدمیوں میں سے اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کر کے اپنی جگہ چھوڑکر مال غنیمت کی طرف دوڑ پڑے، اس سبب سے مشرکین کو عقب سے حملہ کرنے کا موقع مل گیا اور مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ (ابن کثیر) جنگ کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آئے تو بعض لوگ کہنے لگے کہ یہ مصیبت ہم پر کیسے آگئی، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نصرت کا وعدہ فرمایا تھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا، پھر جو کچھ ہوا یہ تمہارے ہمت ہارنے اور آپس میں جھگڑنے اور تمہاری نافرمانی کا نتیجہ تھا۔ (قرطبی) ثُمَّ صَرَفَكُمْ:یعنی غلبہ کے بعد ان کے مقابلہ میں تمھیں پسپائی دلائی، تاکہ تمہاری آزمائش ہو کہ کون سچا مسلمان ہے اور کون کمزور ایمان والا اور جھوٹا۔ (قرطبی) وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ: یعنی گو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور جنگ سے فرار کی راہ اختیار کر کے نہایت سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا، جس کی تمھیں سخت سزا دی جا سکتی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمھارا سارا قصور معاف فرما دیا۔ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس شرف کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان پر فرمایا، یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کر کے، تاکہ آئندہ ان کا اعادہ نہ کریں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے معافی کا عام اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لیے ان پر طعن و تشنیع کی کیا گنجائش رہ گئی۔ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس عثمان رضی اللہ عنہ پر بعض اعتراضات کیے، ایک ان میں سے یہ تھا کہ وہ احد کے دن فرار ہو گئے تھے، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف فرما دیا۔‘‘ [ بخاری، المغازی، باب قول اللہ تعالٰی :﴿إن الذین تولوا منکم…﴾ : ۴۰۶۶ ]