أَنَّىٰ لَهُمُ الذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ
اس وقت انہیں نصیحت کیونکر کارگر ہوگی حالانکہ ان کے پاس کھول کر بیان کرنے والا رسول آچکا
اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَ قَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ ....: یعنی انھیں دھوئیں کے عذاب کی دلیل سے نصیحت کیسے ہو گی جب کہ ان کے پاس اس سے بہت ہی بڑی دلیل پہلے آ چکی اور وہ ہے رسول مبین، جس کا رسول ہونا بالکل واضح ہے اور جس نے ہر بات کھول کر بیان کر دی ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے منہ موڑ لیا اور کہنے لگے کہ یہ کسی کا سکھایا ہوا ہے، دیوانہ ہے۔ ’’ ثُمَّ ‘‘ (پھر) کا لفظ ان کے حال پر تعجب کے اظہار کے لیے ہے کہ رسول مبین کا آنا اس قدر واضح اور روشن نشانی تھی کہ اسے نہ ماننے کی گنجائش ہی نہ تھی، پھر بھی انھوں نے اس پر معلَّم اور مجنون کا بہتان لگا کر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام مختصر کر دیا ہے، ورنہ یہ ایک شخص یا ایک مجلس کی بات نہیں بلکہ کسی شخص نے معلَّم کہا اور کسی نے مجنون، کسی مجلس میں ایک تہمت جڑی گئی تو کسی میں دوسری۔ کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ تہمت لگاتے تھے کہ کوئی آدمی آپ کو یہ قرآن سکھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کا ردّ فرمایا۔ (دیکھیے نحل : ۱۰۳۔ فرقان : ۴ تا ۶) انھیں اس شخص کو دیوانہ کہتے ہوئے حیا نہیں آتی تھی جو اس سے پہلے چالیس برس ان میں رہا اور وہ اسے صادق اور امین کہتے رہے۔ پھر وہ ایسی کتاب لے کر آیا جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کا جواب لانے سے بھی وہ عاجز رہے اور رہیں گے۔ بھلا دیوانے ایسے ہوتے ہیں!؟