رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور یہ آپ کے پروردگار کی رحمت کی بنا [٤] پر تھا بلاشبہ وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے
1۔ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ: یہ’’ مُرْسِلِيْنَ ‘‘ کا مفعول لہ ہے۔ یعنی ہم تیرے رب کی رحمت کی وجہ سے رسول کو بھیجنے والے اور کتاب کو نازل کرنے والے تھے۔ ’’اپنی رحمت‘‘ کے بجائے ’’تیرے رب کی رحمت‘‘ کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف کے اظہار کے لیے ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا نہیں بلکہ کل کائنات کا رب ہے، جیسا کہ آگے یہ بات آ بھی رہی ہے: ﴿رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ ﴾ ’’آسمانوں اور زمین اور ان چیزوں کا رب جو ان دونوں کے درمیان ہیں، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔‘‘ ’’ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ‘‘ میں لفظ ’’رَبٌّ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بندوں پر یہ رحمت ہمارے رب ہونے کا تقاضا ہے، کیونکہ ’’رَبٌّ‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے جسم کی پرورش کا انتظام کیا جائے اور ان کی روحانی پرورش کا انتظام نہ کیا جائے، بلکہ انھیں گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیا جائے۔ 2۔ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ: ’’إِنَّ‘‘ پہلے جملے کی علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے، یعنی ہم نے رسول اس لیے بھیجا کہ تیرا رب خوب سننے اور جاننے والا تھا کہ کس طرح مشرکین بتوں اور باطل معبودوں کی پرستش کر رہے ہیں، کفر کے امام لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور طاقتور کمزوروں پر ظلم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لوگوں کے تمام اقوال و افعال اور نیتوں کو جانتا تھا اور سن رہا تھا، اس لیے اس نے ان کی اصلاح کے لیے رسولوں کو بھیجا۔