وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اور اگر آپ انہیں پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یقیناً کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر انہیں کہاں سے [٧٩] دھوکا لگ جاتا ہے
1۔ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ ....: اس آیت میں مشرکین کے قول و فعل کا تضاد واضح فرمایا ہے، یعنی جب مانتے ہیں کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تو پیدا کرنے والے کو چھوڑ کر دوسروں کی پوجا کیوں کر کرتے ہیں؟ مالک کو چھوڑ کر ان کو مشکل کشا اور حاجت روا کیسے مان بیٹھے ہیں جنھوں نے کچھ پیدا ہی نہیں کیا؟ 2۔ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ: یعنی پھر بہکانے والے انھیں بہکا کر کہاں لے جا رہے ہیں؟ ایک معنی ’’ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ‘‘ کا یہ بھی ہے : ’’ مِنْ أَيْنَ يُؤْفَكُوْنَ ‘‘ کہ پھر وہ کہاں سے بہکائے جاتے ہیں، کون سی دلیل یا کیا سبب ہے جس کی وجہ سے یہ بہکائے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان اصل میں توحید پر ہوتا ہے، پھر شیاطین انسان ہوں یا جن اسے توحید سے بہکا کر شرک میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اس لیے ایسے لوگوں سے بہت ہوشیار اور خبردار رہنا چاہیے، جیسا کہ عیاض بن حمار المجاشعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے خطبہ میں فرمایا : (( أَلَا! إِنَّ رَبِّيْ أَمَرَنِيْ أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِيْ يَوْمِيْ هٰذَا، كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عَبْدًا حَلَالٌ وَ إِنِّيْ خَلَقْتُ عِبَادِيْ حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِيْنُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِيْنِهِمْ وَ حَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُشْرِكُوْا بِيْ مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا )) [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا و أہلہا، باب الصفات التي یعرف بہا في الدنیا أھل الجنۃ و أھل النار : ۲۸۶۵ ] ’’سنو! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں وہ باتیں سکھاؤں جن سے تم ناواقف ہو، ان باتوں میں سے جو اس نے مجھے آج سکھائی ہیں۔ ( وہ فرماتا ہے کہ ) ہر وہ مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا (وہ اس کے لیے) حلال ہے اورمیں نے اپنے تمام بندوں کو حُنفاء (ایک اللہ کی طرف ہو جانے والے) پیدا کیا، لیکن ان کے پاس شیاطین آئے تو انھوں نے انھیں ان کے دین سے بہکا دیا اور ان پر وہ چیزیں حرام کر دیں جو میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں اور انھیں حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک بنائیں جن کی میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔‘‘