إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
وہ تو محض ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور اسے بنی اسرائیل [٥٨] کے لئے (اپنی قدرت کا) ایک نمونہ بنا دیا
1۔ اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ ....: یعنی مسیح علیہ السلام کا اکرام ان کے معبود ہونے کی وجہ سے نہیں، کیونکہ نہ وہ رب تھے نہ رب کے بیٹے، بلکہ صرف عبد بمعنی اللہ کا غلام اور اس کی بندگی کرنے والا ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہ قصر قلب ہے، یعنی مسیح وہ کچھ نہیں جو نصاریٰ یا دوسرے مشرک کہہ رہے ہیں، بلکہ وہ صرف بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا ہے۔ 2۔ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ: ان انعامات میں سے چند انعامات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ مائدہ کی آیات (۱۱۰ تا ۱۱۵) میں اور سورۂ آلِ عمران کی آیات (۴۵، ۴۶) میں اور دوسری آیات میں فرمایا ہے۔ 3۔ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ: بنی اسرائیل کے لیے مثال بنانے سے مراد ان کے لیے نمونۂ قدرت بنانا ہے کہ انھیں باپ کے بغیر پیدا کیا اور انھیں ایسے معجزات عطا فرمائے جو ان کے زمانے میں کسی کو نہیں ملے، جنھیں دیکھ کر لوگوں کو ان کی نبوت کا یقین ہوتا تھا۔