وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ
اور کہنے لگے : کیا ہمارے الٰہ اچھے ہوئے [٥٦] یا وہ (عیٰسی)؟ وہ آپ کے سامنے یہ مثال صرف کج بحثی کی خاطر لائے ہیں۔ بلکہ یہ ہیں ہی جھگڑالو [٥٧] قوم
1۔ وَ قَالُوْا ءَاٰلِهَتُنَا خَيْرٌ اَمْ هُوَ: اس جملے کی وضاحت اوپر کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے۔ 2۔ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ: یعنی ان مشرکین نے مسیح علیہ السلام کا ذکر محض جھگڑے کے لیے کیا ہے، ورنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ مسلمان ان کا عزت و تکریم سے ذکر معبود ہونے کے لحاظ سے نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ ہونے کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہیں ہی سخت جھگڑالو کہ متکلم کی مراد اپنے پاس سے گھڑ کر جھگڑنا اور شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ 3۔ اکثر مفسرین نے ان آیات کی شانِ نزول یہ بیان فرمائی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ﴾ [ الأنبیاء : ۹۸ ] (بے شک تم اور جنھیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، جہنم کا ایندھن ہیں) تو عبد اللہ بن زِبَعریٰ کہنے لگا کہ اللہ کے سوا تو عیسیٰ ابن مریم کی پوجا بھی کی جاتی ہے، اگر وہ جہنم میں گئے تو ہمیں اپنے معبودوں کا جہنم میں جانا بھی منظور ہے۔ یہ سنتے ہی مشرکین نے بہت شور مچایا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) لاجواب ہو گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰى اُولٰٓىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۱۰۱ ] ’’بے شک وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے بھلائی طے ہو چکی وہ اس سے دور رکھے گئے ہوں گے۔‘‘ اور اس سورت کی آیت (۵۷) نازل ہوئی: ﴿ وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ ﴾ ’’اور جب ابن مریم کو بطورِ مثال بیان کیا گیا، اچانک تیری قوم کے لوگ اس پر شور مچا رہے تھے۔‘‘ ( ’’زِبَعْرٰي‘‘ زاء کے کسرہ، باء کے فتحہ اور عین کے سکون کے ساتھ ہے، راء کے بعد الف مقصورہ ہے، یہ عبد اللہ بن زبعری بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ ) یہ تفسیر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے حسن سند کے ساتھ مروی ہے۔ [ دیکھیے مشکل الآثار، باب بیان مشکل ما روي عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم في المراد بقول اللّٰہ عزوجل: ﴿إنکم و ما تعبدون من دون اللّٰہ حصب جھنم ﴾ ، ح : ۹۸۶ ] مسند احمد میں یہ روایت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ان الفاظ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے کہا : ((يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ! إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فِيْهِ خَيْرٌ )) ’’اے جماعتِ قریش! حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کی جاتی جس میں کوئی خیر ہو۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’اے محمد! کیا تم یہ نہیں کہتے کہ عیسیٰ نبی تھا اور اللہ کے بندوں میں سے نیک بندہ تھا، تو اگر تم سچے ہو تو مسیح اور ان کے معبود ایک جیسے ہو گئے۔‘‘ (یہ کہہ کر انھوں نے شور مچانا شروع کر دیا) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ ﴾ [ الزخرف : ۵۷ ] ’’جب ابن مریم کو بطور مثال بیان کیا گیا، اچانک تیری قوم کے لوگ اس پر شور مچا رہے تھے۔‘‘ [ مسند أحمد :1؍318، ح : ۲۹۲۴ ] مسند کے محققین نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ واضح رہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی یہ تفسیر اس تفسیر کے خلاف نہیں جو آیات کے سیاق کے لحاظ سے اوپر کی گئی ہے، کیونکہ اصولِ تفسیر میں یہ بات مسلّم ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ’’نَزَلَتْ فِيْ كَذَا‘‘ (یہ آیت فلاں کے بارے میں نازل ہوئی) ان واقعات کے متعلق بھی فرما دیتے ہیں جن پر کوئی آیت منطبق ہوتی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے مواقع پر پہلے اتری ہوئی کوئی آیت پڑھ دیتے تھے۔ ظاہر ہے مشرکین جن کی عادت ہی جھگڑنا اور کج بحثی کرنا تھا، جھگڑنے کا کوئی موقع کم ہی ہاتھ سے جانے دیتے تھے۔ ان مواقع میں سے ایک موقع: ﴿ اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ﴾ [ الأنبیاء : ۹۸ ] کا نزول بھی تھا، اس پر کفار نے جو شور مچایا، آیت: ﴿ وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ﴾ اس پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا۔