وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
اور فرعون نے (ایک دفعہ) اپنی قوم کے درمیان پکار [٥٠] کر کہا : اے میری قوم کیا یہ مصر کی بادشاہی میری نہیں؟ اور یہ نہریں (بھی) جو میرے نیچے بہ رہی ہیں؟ کیا تمہیں نظر نہیں آتا ؟
1۔ وَ نَادٰى فِرْعَوْنُ فِيْ قَوْمِهٖ: فرعون اور اس کے سرداروں نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے، جن سے انھیں ان کی نبوت کا یقین ہو گیا، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے، بلکہ مقابلے میں جادوگروں کو لے آئے۔ اس میں منہ کی کھائی پھر بھی ایمان نہ لائے، پھر بطور نشانی کتنے عذاب ان پر آئے جو اس وعدے کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام سے دعا کروانے پر دور ہوئے کہ ہم عذاب دور ہونے پر ایمان لے آئیں گے اور تمھارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے، مگر وہ کسی صورت موسیٰ علیہ السلام کو رسول ماننے پر تیار نہ تھے۔ ادھر انھیں خطرہ تھا کہ عوام ان معجزات کے نتیجے میں ان کی طرف مائل ہو جائیں گے، اس لیے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے رسالت کے اہل نہ ہونے کے اپنے خیال میں کئی دلائل گھڑے اور ابلاغ کے جتنے وسائل ہو سکتے تھے ان کے ساتھ پوری قوم میں ان کی منادی کروائی، جیسا کہ اس نے عصائے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لیے تمام شہروں میں آدمی بھیج کر جادوگر اکٹھے کیے تھے، فرمایا : ﴿ فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَآىِٕنِ حٰشِرِيْنَ﴾ [ الشعراء : ۵۳ ]’’ تو فرعون نے شہروں میں اکٹھا کرنے والے بھیج دیے۔‘‘ ’’ فِيْ قَوْمِهٖ ‘‘ کے الفاظ اس منادی کی وسعت پر دلالت کر رہے ہیں۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قصہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہ کرنے کے لیے کفار نے جو دلائل تصنیف کیے ہیں وہ سبھی اس سے پہلے فرعون بھی پیش کر چکا ہے۔ وہ دلائل نہ اسے عذاب سے بچا سکے اور نہ ان لوگوں کو کفر پر اصرار کی صورت میں بچا سکیں گے۔ 2۔ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ وَ هٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ: یعنی برتری اور افضلیت کا پیمانہ دنیاوی مال و دولت اور حکومت و اقتدار ہے، جو موسیٰ کے پاس نہیں میرے پاس ہے۔ کیا میں مصر کے اقتدار کا مالک نہیں ہوں؟ دریائے نیل سے نکالی ہوئی نہروں کے ذریعے سے آب پاشی کا نظام میرے احکام کے تحت چل رہا ہے۔ یہی بات کفارِ مکہ نے کہی تھی : ﴿ وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ [ الزخرف : ۳۱ ] کہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی عظیم آدمی پر اترنا چاہیے تھا۔ 3۔ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ: مصر کے لوگ جو موسیٰ علیہ السلام کے کمالات اور معجزات دیکھ کر متاثر ہو رہے تھے، فرعون انھیں اپنی مادی اور دنیوی شان و شوکت کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ حقیقت میں یہ اس کی شکست خوردگی کی دلیل ہے، کیونکہ یہ سب کچھ تو وہ مدت سے دیکھتے چلے آ رہے تھے۔