وَمَا نُرِيهِم مِّنْ آيَةٍ إِلَّا هِيَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا ۖ وَأَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور ہم نے انہیں جو بھی نشانی دکھائی وہ اپنے سے پہلی نشانی [٤٧] سے بڑھ کر ہوتی تھی اور ہم انہیں عذاب میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید وہ باز آجائیں۔
وَ مَا نُرِيْهِمْ مِّنْ اٰيَةٍ اِلَّا هِيَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِهَا....: فرعون اور اس کے سرداروں نے جب موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہا اور ان کے معجزوں کو جادو قرار دے کر اپنے تمام ماہر جادوگر جمع کرکے ان کا مقابلہ کیا اور صاف شکست کے باوجود اپنے کفر پر اڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر قحط مسلط کر دیا۔ اس پر انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے عذاب ہٹانے کی دعا کی درخواست کی اور قحط دور ہونے پر ایمان لانے کا اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا وعدہ کیا۔ جب قحط دور ہوا تو وعدے سے مکر گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر یکے بعد دیگرے کئی عذاب بھیجے، جن میں سے ہر ایک پہلے سے بڑی نشانی تھا اور ان عذابوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ کفر و تکبر سے پلٹ آئیں اور ایمان قبول کر لیں۔ تفصیل اس کی سورۂ اعراف (۱۳۳) میں ملاحظہ فرمائیں۔