وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں [٤٥] دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو موسیٰ نے جاکر کہا کہ : میں پروردگار عالم کا رسول ہوں
1۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ : یہاں موسیٰ علیہ السلام کے ذکر کی مناسبت کئی طرح سے ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے پہلے رسولوں سے سوال کا حکم دیا کہ کیا اس نے اپنے سوا کوئی معبود مقرر کیے ہیں جن کی عبادت کی جائے، تو جن رسولوں کی کتابوں یا پیروکاروں سے یہ معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں ان میں سب سے پہلے موسیٰ علیہ السلام تھے، کیونکہ ان کی کتاب موجود تھی اور ان کی امت کے لوگ بھی موجود تھے۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے قوم کے سردار تھے، جو حق واضح ہونے کے باوجود اپنے مال و جاہ کی وجہ سے آپ کو حقیر کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کا اہل ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دلانے کے لیے یہ واقعہ ذکر فرمایا کہ یہی معاملہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کا تھا۔ فرعون نے بھی معجزات دیکھنے اور موسیٰ علیہ السلام کی نبوت دل سے ماننے کے باوجود ملک مصر کا مالک ہونے پر فخر کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو ذلیل و حقیر قرار دے کر ان پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میں وہ اللہ کے غضب کا نشانہ بنا اور اپنے لشکروں سمیت سمندر میں غرق کر دیا گیا۔ مقصد قریش اور عربوں کو فرعون جیسے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ 2۔ ’’ بِاٰيٰتِنَا‘‘میں آیات سے مراد عصا اور یدِ بیضا ہیں، کیونکہ سب سے پہلے موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس گئے تو ان کے پاس یہی نشانیاں تھیں۔ 3۔ فَقَالَ اِنِّيْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ: موسیٰ علیہ السلام نے وہ نشانیاں پیش کرکے فرعون کو رب ہونے کے دعوے سے منع کیا، اسے تمام پیغمبروں کی طرح توحید کی دعوت دی اور اکیلے رب العالمین پر ایمان لانے کا حکم دیا۔