وَلَن يَنفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذ ظَّلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ
اور (انہیں کہا جائے گا) جب تم ظلم کرچکے ہو تو آج تمہیں (ایسی گفتگو) کچھ نفع نہیں دے سکتی۔ تم سب عذاب میں برابر [٣٩] کے شریک ہو۔
وَ لَنْ يَّنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ....: دنیا میں اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو اسے اس بات سے کچھ تسلی ہوتی ہے کہ وہ اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ اور لوگ بھی اس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ اس کے علاوہ دوستوں کی صحبت کے احساس سے بھی تکلیف میں کچھ کمی ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے اور حوصلہ دلاتے ہیں۔ عام مقولہ ہے : ’’ہمہ یاراں دوزخ، ہمہ یاراں بہشت‘‘ کہ دوزخ میں گئے تو سب دوست اکٹھے جائیں گے اور بہشت میں گئے تو بھی اکٹھے جائیں گے۔ قرین کی مناسبت سے فرمایا کہ اگر تم اس بات سے کچھ تسلی حاصل کرنا چاہو کہ میں عذاب میں ہوں تو میرا قرین بھی تو عذاب میں ہے تو تمھارا یہ خیال غلط ہے، جب تم دنیا میں ظلم کرتے رہے تو آج تمھیں اس بات سے ہر گز کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ تم عذاب میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہو، کیونکہ وہ عذاب ہی اتنا سخت ہے کہ کسی کو کسی کی ہوش نہیں ہو گی، بلکہ مجرم اپنے تمام خویش و اقارب فدیے میں دے کر اس عذاب سے نجات پانے کی خواہش کرے گا۔ (دیکھیے معارج : ۱۱ تا ۱۴) شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’یعنی کافر کہیں گے خوب ہوا کہ انھوں نے ہمیں عذاب میں ڈلوایا، یہ بھی نہ بچے، لیکن اس کا کیا فائدہ اگر دوسرا پکڑا گیا۔‘‘ (موضح)