سورة غافر - آیت 50

قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۚ قَالُوا فَادْعُوا ۗ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ کہیں گے ’’کیا تمہارے پاس رسول واضح دلائل لے کر نہیں [٦٤] آئے تھے؟‘‘ دوزخی کہیں گے : ’’کیوں نہیں‘‘ (ضرور آئے تھے) تو وہ کہیں گے : ’’ پھر تم خود [٦٥] ہی دعا کرلو‘‘ اور کافروں کی دعا تو گُم ہی ہوجانے والی [٦٦] ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْا اَوَ لَمْ تَكُ تَاْتِيْكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ....: جہنم کے دربان ان پر واضح کرنے کے لیے کہ تم اس قابل ہی نہیں کہ تمھاری بات سنی جائے یا تمھاری سفارش کی جائے، ان سے کہیں گے، کیا تمھارے رسول تمھارے پاس واضح دلیلیں لے کر نہیں آیا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے، کیوں نہیں! اس پر فرشتے ان سے کہیں گے، پھر جب تم نے ان کی پکار پر لبیک نہیں کہا تو تمھاری پکار بھی کوئی نہیں سنے گا، سو پکارتے رہو، کافروں کی پکار بالکل بے سود اور بے کار ہے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’دوزخ کے فرشتے کہیں گے، سفارش ہمارا کام نہیں، ہم تو عذاب پر مقرر ہیں۔ سفارش کام ہے رسولوں کا، سو رسولوں سے تو تم برخلاف ہی تھے۔‘‘ (موضح) دوسری جگہ فرمایا کہ وہ مالک (یعنی جہنم کے بڑے دربان) کو پکار کر کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہمارا کام ہی تمام کر دے، مگر وہ کہے گا، تمھیں یہیں رہنا ہے۔ (دیکھیے زخرف : ۷۷) اور وہ رب تعالیٰ سے بھی جہنم سے نکالنے کی درخواست کریں گے، مگر وہاں سے بھی انھیں دھتکار کر کہا جائے گا کہ مجھ سے بات مت کرو۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۱۰۷، ۱۰۸)۔