سورة آل عمران - آیت 121

وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب آپ صبح دم اپنے گھر سے نکلے اور مسلمانوں کو جنگ (احد) کے لیے مورچوں پر بٹھا [١١٠] رہے تھے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ:یہاں سے غزوۂ احد کا بیان ہے۔ غزوۂ بدر میں ذلت آمیز شکست، ستر آدمی قتل اور ستر قید ہونے کے بعد مشرکین نے جوش انتقام میں مدینہ پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا اور ارد گرد سے مختلف قبائل کو جمع کر کے تین ہزار کا مسلح لشکر لیا اور جبل احد کے قریب آکر ٹھہر گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ بعض نے مدینہ میں رہ کر لڑنے کا مشورہ دیا، جب کہ بعض پرجوش نوجوانوں نے، جو بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے، میدان میں نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آپ ان کی رائے کے مطابق ایک ہزار کی جمعیت لے کر باہر نکلے۔ مقام ’’ شوط‘‘ پر عبد اللہ بن ابی نے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ لوٹ آیا۔ اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے بھی پست ہو گئے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی بخشی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات سو صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ جمعیت لے کر آگے بڑھے اور احد کے قریب وادی میں فوج کو آراستہ کیا، جس کی طرف قرآن نے ﴿تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ﴾ میں اشارہ کیا ہے۔ اسلامی فوج کی پشت پر جبلِ احد تھا اور ایک جانب ٹیلے پر عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں پچاس تیر اندازوں کا دستہ متعین تھا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا تھا کہ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارے جسموں کو نوچ رہے ہیں، تو پھر بھی اس جگہ کو نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کفار کو شکست دے دی ہے اور انھیں پامال کر دیا ہے، پھر بھی اس جگہ کو نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ میں پیغام بھیجوں۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ کفار کو پسپا ہوتے دیکھ کر نیچے اتر آئے اور اس گھاٹی کو چھوڑ دیا جس سے مشرکین کو عقب سے حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ اس اچانک حملے سے مسلمانوں کے پا ؤ ں اکھڑ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ثابت قدم رہے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دانت مبارک شہید ہو گیا، سر اور پیشانی مبارک بھی زخمی ہو گئے۔ آخر کار صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد دوبارہ جمع ہوئے، جس سے میدان جنگ کا نقشہ بدل گیا اور دشمن کو ناکام ہو کر لوٹ جانا پڑا۔ یہ شوال ۳ھ کا واقعہ ہے۔ ان آیات میں جنگ کے بعض واقعات کی طرف اشارے آ رہے ہیں۔ (ابن کثیر)