وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِن سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ
اور اگر ان ظالموں کو زمین کی ساری دولت میسر ہو اور اتنی اور بھی ہو تو وہ روز قیامت کے برے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ میں دینے [٦٣] کو تیار ہوجائیں گے۔ اس دن اللہ کی طرف سے ان کے لئے ایسا عذاب ظاہر ہوگا جو ان کے سان گمان میں بھی نہ ہوگا
1۔ وَ لَوْ اَنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ....: ظلم کرنے والوں سے مراد مشرک ہیں، انھی کا ذکر مسلسل آ رہا ہے۔ مشرکین کے اقوال و احوال کا ذکر اور ان کا رد کرنے کے بعد ان کا انجام بیان فرمایا کہ آخرت کے دن اگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہو تو قیامت کے دن کے برے عذاب سے بچنے کے لیے اسے ضرور ہی فدیے میں دے دیں گے اور ان کی خواہش ہو گی کہ یہ سب کچھ دے کر ان کی جان عذاب سے بچ جائے۔ (دیکھیے یونس : ۵۴) مگر ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۸ اور ۱۲۳)، آل عمران (۹۱)، مائدہ (۳۶، ۳۷)، انعام (۷۰)، رعد (۱۸) اور سورۂ حدید (۱۵)۔ 2۔ وَ بَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ ....: یعنی جس طرح جنت والوں کو وہ نعمتیں ملیں گی جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی آدمی کے دل میں ان کا خیال آیا (دیکھیے سجدہ : ۱۷) ایسے ہی کفار کے سامنے اللہ کی طرف سے ایسے ایسے عذاب آئیں گے جن کا وہ گمان بھی نہ کرتے تھے۔ ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے متعلق جو جھوٹی امیدیں رکھے ہوئے تھے اور اپنے حاجت رواؤں اور مشکل کُشاؤں کی دستگیری کے متعلق ان کے جو گمان تھے اس دن ان کے سامنے اللہ کی طرف سے اس کے برعکس وہ کچھ پیش آئے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرتے تھے اور جن اعمال کو وہ نیکیاں سمجھتے تھے وہ برائیوں کی صورت میں ان کے سامنے ظاہر ہوں گے۔ سفیان ثوری سے مروی ہے کہ انھوں نے یہ آیت پڑھی اور فرمایا : ’’وَيْلٌ لِأَهْلِ الرِّيَاءِ، وَيْلٌ لِأَهْلِ الرِّيَاءِ‘‘ ’’دکھاوے والوں کے لیے ہلاکت ہے، دکھاوے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔‘‘ (الوسیط) کیونکہ قیامت کے دن انھیں امید کے برعکس معاملہ پیش آئے گا، جیسا کہ ریا کار عالم، شہید اور سخی والی حدیث میں مذکور ہے۔