قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
آپ ان سے کہئے کہ سفارش پوری کی پوری اللہ ہی کے [٦٠] اختیار میں ہے۔ آسمانوں اور زمین میں اسی کی حکومت ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
قُلْ لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيْعًا ....: لفظ ’’ لِّلّٰهِ ‘‘ پہلے آنے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا۔ یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ سفارش کی تمام صورتوں کا مالک تو صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کر ہی نہیں سکتا، اس لیے اسی کو پکارنا چاہیے، کیونکہ وہ اجازت دے گا تو کوئی سفارش کرے گا۔ سفارش ہی نہیں آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کی ہے، کسی اور کا دخل نہ سفارش میں ہے نہ بادشاہی میں، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یعنی اللہ کے روبرو سفارش ہے، پر اللہ کے حکم سے، نہ کہ تمھارے کہے سے، جب موت آئے کسی کے کہے سے عزرائیل نہیں چھوڑتا۔‘‘ (موضح) (یاد رہے! ملک الموت کا نام عزرائیل کتاب و سنت سے ثابت نہیں) شفاعت کے متعلق دیکھیے آیت الکرسی (بقرہ : ۲۵۵) کی تفسیر۔