لَهُم مِّن فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِن تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ۚ ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ
ان کے اوپر بھی آگ کے سائبان [٢٥] ہوں گے اور ان کے نیچے بھی۔ اسی بات سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ اے میرے بندو! مجھ سے ڈرتے رہو
1۔ لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ....: ’’ ظُلَلٌ ‘‘ ’’ظُلَّةٌ‘‘ کی جمع ہے، سائبان، چھَتر، ڈھانپنے یا سایہ کرنے والی کوئی چیز، جس کی دیواریں نہ ہوں، جیساکہ فرمایا : ﴿ وَ اِذَا غَشِيَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ ﴾ [ لقمان : ۳۲ ]’’اور جب انھیں سائبانوں جیسی کوئی موج ڈھانپ لیتی ہے۔‘‘ یعنی ان کے اوپر اور نیچے ہر طرف آگ کے سائبان ہوں گے۔ نیچے والی آگ کی لپٹوں کو سائبان اس لیے کہا گیا کہ وہ کچھ اور لوگوں کے اوپر ہوں گی، کیونکہ جہنم میں کئی طبقے ہیں، جنھیں دَرکات کہا جاتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ﴾ [ النساء : ۱۴۵ ] ’’بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔‘‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آگ کی لپٹوں کو نیچے سے اوپر اٹھنے کی وجہ سے سائبان کہا گیا ہو۔ دوسری آیت میں نیچے والی آگ کو ان کے بچھونے اور اوپر والی آگ کو ان کے لحاف بتایا ہے، فرمایا : ﴿ لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ﴾ [ الأعراف : ۴۱ ] ’’ان کے لیے جہنم ہی کا بچھونا اور ان کے اوپر کے لحاف ہوں گے۔‘‘ اور ایک آیت میں فرمایا : ﴿ يَوْمَ يَغْشٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ﴾ [ العنکبوت : ۵۵ ] ’’جس دن عذاب انھیں ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ڈھانپ لے گا۔‘‘ اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ 2۔ ذٰلِكَ يُخَوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗ ....: یعنی یہ قیامت کا خسارہ اور آگ کے سائبان ہیں جن کے ساتھ اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، تو اے میرے بندو! مجھ سے ڈر جاؤ اور ہمیشہ ڈرتے رہو۔