فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُم مِّن دُونِهِ ۗ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ
تم اسے چھوڑ کر جس کی عبادت کرنا چاہتے ہو کرتے رہو (نیز) کہئے کہ اصل میں تو خسارہ اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارہ میں ڈال دیا۔ دیکھو! یہی بات صریح خسارہ [٢٤] ہے
1۔ فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ : اس میں ایک تو شرک اور مشرکین سے علیحدگی اور براء ت کا اعلان ہے کہ تم اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو، مجھ سے یہ توقع ہر گز نہ رکھو۔ سورۂ کافرون میں یہی مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ دوسرے اس میں مشرکین کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر میرے سمجھانے کے باوجود تم ان جھوٹے معبودوں کی بندگی پر ڈٹے ہوئے ہو تو ڈٹے رہو، مگر سزا بھگتنے پر بھی تیار رہو۔ تمھارے انجام کی ذمہ داری مجھ پر نہیں۔ 2۔ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَهُمْ....: ’’ الْخٰسِرِيْنَ ‘‘ میں الف لام کمال کے معنی کے لیے ہے، یعنی کامل اور اصل خسارے والے وہ ہیں۔ آدمی کو اپنی جان اور گھر والے سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ فرمایا، کہہ دے اصل خسارے والے لوگ وہ ہیں جنھوں نے شرک کرکے اور شرک کی تعلیم دے کر قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کا ایندھن بنایا، کیونکہ دنیا کے خسارے کا تومداوا ہو سکتا ہے مگر قیامت کے دن کے خسارے کا کوئی مداوا نہیں۔ 3۔ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ: مشرکین کی غباوَت اور کند ذہنی کو مد نظر رکھ کر ایک دفعہ پھر صاف لفظوں میں ان کے واضح خسارے کا اظہار فرمایا، تاکہ کسی جملے ہی سے وہ توحید کی طرف پلٹ آئیں۔