خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
اس نے زمین و آسمان کو حق [٨] کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا۔ ہر ایک، ایک مقررہ وقت تک یونہی [٩] چلتا رہے گا۔ یاد رکھو! وہی سب پر غالب [١٠] اور بخش دینے والا ہے۔
1۔ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ : یعنی اس نے آسمانوں کو اور زمین کو بالکل درست اور صحیح طریقے پر بنایا ہے۔ کوئی شخص اس کی کسی چیز کو غلط نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی اس سے بہتر پیش کر سکتا ہے، اور اس نے انھیں خاص مقصد اور مصلحت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۷۳)، یونس (۵)، حجر (۸۵) اور نحل (۳)۔ 2۔ يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ ....: ’’كَوْرُ الْعِمَامَةِ وَ تَكْوِيْرُهَا‘‘ پگڑی لپیٹنا۔ اس آیت میں زمین کے گول ہونے کا بھی اشارہ ہے، یعنی جس طرح سر پر پگڑی لپیٹی جاتی ہے کہ اس کے ایک پیچ کے اوپر دوسرا پیچ آ جاتا ہے، جو پہلے پیچ کو چھپا لیتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر رات کو کسی وقفے کے بغیر دن پر لپیٹتا ہے، جیسے جیسے رات کا پیچ آگے بڑھتا ہے روشنی چھپتی جاتی ہے اور تاریکی پھیلتی جاتی ہے، اس کے پیچھے دن کا پیچ سورج کی صورت میں پھیلتا چلا آتا ہے، جس سے رات کی تاریکی چھپ کر روشنی پھیلتی جاتی ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴)۔ 3۔ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ ....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ رعد (۲)۔ 4۔ اَلَا هُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفَّارُ : لفظ ’’ اَلَا ‘‘ اس مقصد کے لیے ہے کہ اس آیت کے مضمون پر خوب غور کرو اور اس پر خاص توجہ دو۔ ’’ الْعَزِيْزُ ‘‘ یعنی وہ جس نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا، جو رات کو دن پر لپیٹتا اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے، وہی سب پر غالب ہے، کسی میں طاقت نہیں کہ وہ جو کرنا چاہے اسے روک دے اور جسے روکنا چاہے وہ کر گزرے۔ ’’ الْغَفَّارُ ‘‘ یعنی اتنے غلبے اور قوت کے باوجود اس نے اپنے نافرمانوں کو جو مہلت دے رکھی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بے پناہ غلبے کے ساتھ ساتھ بندوں کے گناہوں پر نہایت پردہ ڈالنے والا اور بے حد بخشنے والا بھی ہے۔