رُدُّوهَا عَلَيَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ
(آپ نے حکم دیا کہ) کہ ان گھوڑوں کو میرے پاس واپس لاؤ تو آپ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
1۔ رُدُّوْهَا عَلَيَّ فَطَفِقَ مَسْحًۢا ....: تو انھوں نے حکم دیا کہ انھیں میرے پاس واپس لاؤ۔ جب وہ واپس لائے گئے تو سلیمان علیہ السلام محبت کے ساتھ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ 2۔ گھوڑوں کی دوڑ لگوانا اور ان کے جسم پر محبت سے ہاتھ پھیرنا دونوں کام جہاد کا حصہ اور باعث اجر و ثواب ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کے دونوں عمل ان کے ’’ نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّهٗ اَوَّابٌ ‘‘ ہونے کی مثال کے طور پر ذکر فرمائے ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھوڑوں کی دوڑ کا مقابلہ کروایا کرتے تھے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : (( سَابَقَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِيْ قَدْ أُضْمِرَتْ فَأَرْسَلَهَا مِنَ الْحَفْيَاءِ، وَكَانَ أَمَدُهَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ فَقُلْتُ لِمُوْسٰی فَكَمْ كَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ؟ قَالَ سِتَّةُ أَمْيَالٍ أَوْ سَبْعَةٌ وَ سَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِيْ لَمْ تُضَمَّرْ، فَأَرْسَلَهَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ، وَكَانَ أَمَدُهَا مَسْجِدَ بَنِيْ زُرَيْقٍ، قُلْتُ فَكَمْ بَيْنَ ذٰلِكَ؟ قَالَ مِيْلٌ أَوْ نَحْوُهُ وَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ مِمَّنْ سَابَقَ فِيْهَا )) [ بخاري، الجہاد، باب غایۃ السبق للخیل المضمرۃ : ۲۸۷۰ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تضمیرشدہ گھوڑوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کروایا۔ چنانچہ انھیں ’’حفیاء‘‘ سے دوڑایا اور ان کی آخری جگہ ’’ثنیۃ الوداع‘‘ تھی۔ (ابواسحاق کہتے ہیں کہ) میں نے موسیٰ بن عقبہ سے پوچھا : ’’ان کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟‘‘ تو انھوں نے فرمایا : ’’ان دونوں کے درمیان چھ یا سات میل کا فاصلہ تھا۔‘‘ اور ان گھوڑوں کو جو تضمیرشدہ نہیں تھے ثنیۃ الوداع سے دوڑایا اور ان کی آخری جگہ مسجد بنی زریق تھی۔ میں نے پوچھا : ’’ان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟‘‘ تو موسیٰ بن عقبہ نے فرمایا : ’’ان دونوں کے درمیان ایک میل یا اس کے قریب فاصلہ ہے۔‘‘ اور ابن عمر رضی اللہ عنھما بھی اس مقابلے میں شامل تھے۔‘‘ (تضمیر کا لفظی معنی لاغر کرنا ہے۔ یہ گھوڑوں کی خاص طریقے سے تیاری کو کہتے ہیں، جس میں پہلے انھیں خوب کھلا پلا کر موٹا کیا جاتا ہے، پھر آہستہ آہستہ ان کی خوراک کم کرکے کچھ وقت کے لیے بند کر دی جاتی ہے۔ اس کے دوران ان کے جسم کی مالش اور تیاری کی جاتی ہے، جس سے وہ بھوک پیاس برداشت کرنے اور زیادہ دیر تک دوڑنے کے قابل ہو جاتے ہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑوں کی پیشانیوں کے بالوں پر محبت سے ہاتھ بھی پھیرا کرتے تھے، چنانچہ جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَلْوِيْ نَاصِيَةَ فَرَسٍ بِإِصْبَعِهِ وَ هُوَ يَقُوْلُ الْخَيْلُ مَعْقُوْدٌ بِنَوَاصِيْهَا الْخَيْرُ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ : الْأَجْرُ وَ الْغَنِيْمَةُ )) [مسلم، الإمارۃ، باب فضیلۃ الخیل و أن الخیر معقود بنواصیھا : ۱۸۷۲ ] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ ایک گھوڑے کی پیشانی کے بالوں کو اپنی انگلی کے ساتھ مروڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے : ’’گھوڑوں کی پیشانیوں کے ساتھ قیامت کے دن تک خیر باندھ دی گئی ہے، یعنی اجر اور غنیمت۔‘‘ یہ ہے وہ تفسیر جس پر دل کو اطمینان ہوتا ہے، کیونکہ اس میں کوئی تکلّف نہیں۔ امام طبری، رازی، ابن حزم اور بہت سے ائمہ نے اسے ہی صحیح قرار دیا ہے، ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنھما نے بھی یہی تفسیر فرمائی ہے۔ چنانچہ طبری نے علی ابن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ آیت : ﴿ فَطَفِقَ مَسْحًۢا بِالسُّوْقِ وَ الْاَعْنَاقِ﴾ کے متعلق ان کا قول نقل فرمایا ہے : ’’يَقُوْلُ جَعَلَ يَمْسَحُ أَعْرَافَ الْخَيْلِ وَ عَرَاقِبَهَا حُبًّا لَهَا‘‘ یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام ان کی گردنوں کے بالوں پر اور ان کی ٹانگوں کے پچھلے حصوں پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگے۔ تنبیہ : بہت سے مفسرین نے ان آیات کی تفسیر ایک اور طریقے سے کی ہے۔ ان کے مطابق ترجمہ و تفسیر یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے سامنے پچھلے پہر اصیل تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے۔ (یہاں عبارت محذوف ہے کہ انھوں نے ان کی دوڑ کا مقابلہ کروایا، جس کی وجہ سے ان کی عصر کی نماز فوت ہو گئی تو) انھوں نے کہا، میں نے مال کی محبت کو اپنے رب کے ذکر پر ترجیح دی، یہاں تک سورج پردے میں چھپ گیا۔ (تو انھوں نے حکم دیا) انھیں میرے پاس واپس لاؤ، تو وہ ان کی پنڈلیاں اور گردنیں تلوار سے کاٹنے لگے۔ مگر اس تفسیر کی صورت میں کئی ایسی چیزیں محذوف ماننا پڑتی ہیں جن کی کوئی دلیل نہیں، مثلاً یہ کہ ان کی عصر کی نماز فوت ہو گئی، یا سورج پردے میں چھپ گیا، پھر تلوار کا اور اس کے ساتھ پنڈلیاں اور گردنیں کاٹنے کا یہاں نہ کوئی ذکر ہے نہ قرینہ ہے اور نہ ہی ایک پیغمبر سے جہادی گھوڑوں کو اس طرح کاٹنے کی توقع ہو سکتی ہے جن کا کوئی جرم نہ تھا۔ نہ ہی سلیمان علیہ السلام کی ان سے محبت کا باعث مال کی محبت تھا، بلکہ اس محبت کا اصل باعث جہاد سے محبت تھا اور نہ ہی یہ تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے منقول ہے، جب کہ پہلی تفسیر صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا ہے۔ مفسر رازی نے اور خصوصاً ابن حزم نے گھوڑوں کو کاٹنے والی تفسیر کی سخت تردید کی ہے۔