وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ
اور ان کے سردار چل کھڑے ہوئے (اور کہنے لگے کہ) ’’چلو اور اپنے خداؤں کی عبادت [٥] پر ڈٹے رہو۔ یہ بات تو کسی اور ہی ارادہ [٦] سے کہی جارہی ہے‘‘
1۔ وَ انْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ ....: ’’ الْمَلَاُ ‘‘ کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۴۶) یعنی کفار کے سرکردہ اور بڑے لوگ توحید کی دعوت سن کر آپ کی مجلس سے یہ کہہ کر چل کھڑے ہوئے کہ اپنے دین اور طریقے پر چلتے رہو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو، جیسا کہ قوم نوح نے کہا تھا : ﴿لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا وَّ لَا يَغُوْثَ وَ يَعُوْقَ وَ نَسْرًا ﴾ [ نوح : ۲۳ ] ’’تم ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ کبھی وَدّ کو چھوڑنا اور نہ سُواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو۔‘‘ 2۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو باطل اور شرک پر ڈٹے رہنے کی اتنی تاکید کر رہے ہیں، اہلِ حق کو تو اس سے زیادہ حق پر قائم رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کو قائم رہنے کی تاکید کرنی چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ الْعَصْرِ (1) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ (2) اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ [ العصر : ۱ تا ۳ ] ’’زمانے کی قسم! کہ بے شک ہر انسان یقیناً گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔‘‘ 3۔ اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ : یعنی اس نے ہمارے سامنے جو کلمہ توحید پیش کیا ہے یہ ایسی چیز ہے جس کے اعلان کا اور اسے ہر حال میں نافذ کرنے کا ارادہ کیا جا چکا ہے، اب اسے اس سے باز رکھنے کی کوئی صورت نہیں، اس لیے اسے اس کے حال پر چھوڑو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔